الوداع 2024/سال 2024 پی ٹی آئی کے لیے مشکل ترین اور مصائب سے بھرپور سال ،
تمام تر ریاسی جبر و تشدد کے جاوجود نہ تو پی آتی آئی کے کارکنوں کے حوصلے میں کمی لائی جا سکی اور نہ ہی بانی چیرمین عمران خان کو جھکنے پر مجبور کیا جا سکا ۔
اسلام آباد:2024 پاکستان تحریک انصاف کے لیے بدترین ریاستی جبر و تشدد، مشکلات و مسائل اور عدالتی جدوجہد سے بھرپور سال رہا جس کو بھولنا نہ تو اس جماعت کے لیے ممکن ہو گا اور نہ ہی اس ملک کے عوام کے لیے،
پاکستان تحریک انصاف جس کے لیے اپریل 2022 میں حکومت کے خاتمے کے بعد سے ایک مشکل دور کا اغاز ہوا تھا اس کا سلسلہ 24 میں بھی جاری رہا اور اس سال میں اس کی مشکلات میں قطعا کوئی کمی نہ آ سکی بلکہ ان میں بدترین شکل میں اضافہ ہی دیکھا گیا،
پی ٹی ائی کے بانی چیئرمین عمران خان سمیت بہت سے دیگر قائدین اس سال کے دوران بھی جیلوں کی سلاخوں سے باہر نہ ا سکے نہ ہی ان کے خلاف درج مقدمات اپنے انجام کو پہنچ سکے، جبکہ بہت سے رہنماؤں کی رہائی اور دوبارہ گرفتاریاں 2024 کے دوران معمول کا باعث بنیں رہیں ۔
2024 میں عمران خان کی ضمانت کی منظوری اور رہائی کے حوالے سے عدالتوں کی جانب سے مختلف فیصلے سامنے ائے لیکن ان کی رہائی ممکن نہ ہو سکی اسی طرح پی ٹی ائی کے دیگر قائدین جن میں شاہ محمود قریشی اعجاز چوہدری یاسمین راشد، محمود الرشید ، عمر سرفراز ثیمہ اور اعظم سواتی شامل ہیں وہ بھی بدستور جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے زندگی گزارنے پر مجبور رہے،
پی ٹی ائی کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ میں 2024 ایک انتہائی مشکل، کٹھن، مصائب و آلام سے دوچار کے سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا،
اس تمام تر صورتحال کے باوجود تحریک انصاف کی سیاسی جدوجہد میں کوئی کمی نہ آئی اور اس کی جانب سے جلسوں اور لانگ مارچوں کا سلسلہ جاری رہا،
2024 میں پی ٹی آئی نے عمران خان کی ہدایت پر دو مرتبہ اسلام اباد کی جانب سے لانگ مارچ کیا گیا لیکن بیرون جیل پی ٹی آئی کی قیادت میں یکجہتی کے فقدان، معاملہ فہمی اور ٹھوس حکمت عملی کی تیاری کی صلاحیت سے عاری ہونے کے باعث ان میں سے کسی بھی لانگ مارچ سے مطلوبہپ مقاصد حاصل نہ کیے جا سکے،
بالخصوص نومبر 24 تا 26 کو ہونے والا لانگ مارچ جو مظاہرین کی تعداد کے حوالے سے ایک تاریخی لانگ مارچ تھا کا انجام بھی پی ٹی آئی کی قیادت کی ناقص حکمت عملی کے باعث نہایت بھیانک رہا،
اس لانگ مارچ کو منتشر یا ختم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے ریاستی جبر و تشدد مین کوئی کسر نہ چھوڑی گئی اور اس کے لیے جس قسم کے حربے اختیار کیے گئے وہ ماضی میں کسی بھی سیاسی جدوجہد کے دوران کسی بھی حکومت کی جانب سے دیکھنے کو نہیں ملتے،
کیونکہ یہ وہ موقع تھا جب مظاہرین پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے بہت بیہیمانہ طریقوے سے سامنے سے گولیاں برسائیں جس کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں اور مظاہرین وہاں سے دم دبا کردوڑنے پر مجبور ہو گئے،
پی ٹی ائی کے کارکنان کے خلاف مقدمات کا اندراج ان کا اغوا اور گمشدگیوں کے واقعات سال بھر کا معمول رہے،
حکومت نے ان حربون کے ذریعے پی ٹی ائی کو ختم کرنے کی اس سال کے دوران بے تحاشہ کوششیں کیں لیکن اس کے باوجود نہ تو پی ٹی آئی کو ختم کیا جا سکا اور نہ ہی بانی چیرمین عمران خان کی مقبولیت میں کوئی کمی لائی جا سکی،
حکومت تمام کوششوں کے باوجود بانی پی ٹی ائی کے حوصلے کو توڑنے یا ان کو اپنے سامنے جھکانے میں بھی کامیاب نہ ہو سکی،