توہین عدالت پر شوکاز نوٹس سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو 5 جون کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سینیٹر فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر لئے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی
اسلام آباد( کورٹ رپورٹر) فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت پر شوکاز نوٹس جاری , 5 جون کو ذاتی حیثیت میں طلب ،
اس موقع پرچیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا آپ نے پریس کانفرنس سنی؟ توہین عدالت ہوئی یا نہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کچھ حصہ خبروں میں سنا ہے۔
اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ کیا یہ پریس کانفرنس توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے؟
وکلا، ججز اور صحافیوں سب میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، برا کیا ہے تو نام لے کر مجھے کہیں ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، ہوسکتا ہے میں نے بھی اس ادارے میں 500 نقائص دیکھے ہوں، کیا ایسی باتوں سے آپ عدلیہ کا وقار کم کرنا چاہتے ہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ادارے عوام کے ہوتے ہیں، اداروں کو بدنام کرنا ملک کی خدمت نہیں، اداروں میں کوتاہیاں ہوسکتی ہیں، میں کسی اور کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا، اگر میں نے کوئی غلط کام کیا ہے تو بتائیں، تنقید کریں، ہم ہر روز اچھا کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر عمل کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں مارشل لاء کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کروں گا، اگر میں نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کی سزا دیگر ججز کو نہیں دی جا سکتی،
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ایک کمشنر نے مجھ پر الزام لگایا، بھئی بتاو تو صحیح چیف جسٹس کیسے دھاندلی کروا سکتا ہے؟ سارے میڈیا نے اسے چلا دیا، مہذب معاشروں میں کوئی ایسی بات نہیں کرتا اس لئے وہاں توہین عدالت کے نوٹس نہیں ہوتے، چیخ و پکار اور ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت ہے، تعمیری تنقید ضرور کریں لیکن تنقید کی ایک حد ہونی چاہیے۔
بھٹو کو ہم زندہ نہیں کر سکتے لیکن غلطی تو مان لی: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ان کے بعد ایک اور صاحب آگئے جن کا نام مصطفیٰ کمال ہے، انہوں نے بھٹو کا ذکر کیا، بھائی اگر ہم نے غلط کیا ہے تو بتائیں، بھٹو کے بارے میں آپ نے کیا کیا ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو کو ہم زندہ تو نہیں کر سکتے لیکن غلطی تو مان لی، صرف ایک کام کرنا ہے کہ ادارے کو بدنام کرنا ہے، آپ نے بڑی جدوجہد کر دی تقریر کر کے، لیکن بہتری کیلئے کوئی بھی تحریری طور پر نہیں جاتا، آپ نے تقریر کرنی ہے تو پارلیمنٹ میں کریں نا، پریس کلب کیوں؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ دونوں ہی افراد پارلیمنٹ کے ارکان ہیں تو ایوان میں بولتے، ایسی گفتگو کرنے کیلئے پریس کلب کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ پارلیمان میں بھی ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جا سکتی، ہمیں پتا ہے ہمارا انڈیکس میں نمبر 137 یا جو بھی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے ہماری عدلیہ کون سے نمبر پر ہے، گالیاں دینا مناسب نہیں، ہر چیز پر حملہ نہ کریں، آپ ادارے کو تباہ کر رہے ہیں، اگر توہین عدالت کی کارروائی چلائی تو کیس میں استغاثہ کون ہوگا؟ استغاثہ اٹارنی جنرل ہوں گے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اب وزن آپ کے کندھوں پر ہے، کیا شوز کاز نوٹس ہونا چاہیے یا صرف نوٹس ہونا چاہیے؟ ملک کا ہر شہری عدلیہ کا حصہ ہے، جرمنی میں ہٹلر گزرا ہے وہاں آج تک کوئی رو نہیں رہا، غلطیاں ہوئیں انہیں تسلیم کر کے آگے بڑھیں، سکول میں بچے غلطی تسلیم کریں تو استاد کا رویہ بدل جاتا ہے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال سے 2 ہفتے میں جواب طلب کر لیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو تنقید کرنی ہے ہمارے سامنے کریں، دونوں افراد کو نوٹس جاری کرتے ہیں، ہمارے منہ پر آ کر تنقید کر لیں۔
سپریم کورٹ نے پیمرا سے پریس کانفرنس کی ویڈیو ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 5 جون تک ملتوی کر دی۔