اسلام آباد( یو این آئی )سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ ججزکے خط کے حوالے سے لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران فل کورٹ کی تشکیل کا عندیہ دیاہے اور کہاہے کہ فل کورٹ نہ بنانے کی وجہ ججزکی عدم دستیابی تھی کچھ ججزلاہور اور کچھ کراچی میں تھے ،ممکن ہے کہ آئندہ سماعت پر فل کورٹ بنادی جائے،سماعت بھی روزانہ کی بنیادپرکی جائیگی،مزیدسماعت 29اپریل تک ملتوی کردی گئی۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیی نے ریمارکس دیئے کہ میں نے وزیراعظم سے ملاقات میں واضح پیغام دیا کہ عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔میں اپنے ججز کے ساتھ کھڑا ہوں ، سابقہ کیسز میں جو غلطیاں ہوئیں ، ہم نے اسے بھی تسلیم کیا ، جس جج سے زیادتی ہوئی ہم نے اسے درست کرنے کی کوشش کی ، ہم اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتے، بہت کچھ ہو رہاہے ، ججز بھی چاہتے ہیں کہ انکوائری ہو۔میرے وقت میں کچھ ہوا تو میں اسے برداشت نہیں کروگا،مجھے نشاندہی کرائی جائے اور میں بتاوں گا کہ میں کیا کرتاہوں۔ جو لوگ چلے گئے ان پر انگلی اٹھانا نہیں چاہتا، صرف بات کرنا چاہتاہوں، عدلیہ کی آزادی کے لیے ہماری زیرو برداشت پالیسی ہے، عدلیہ کی آزادی پر کسی قسم کا حملہ ہوگا تو سب سے پہلے میں اور میرے ساتھی کھڑے ہوں گے۔ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم کسی کی عزت اچھالیں، ایک طرف پالیمان ، دوسری طرف صدر اور تیسری طرف حکومت ہے ، ہم سب کا احترام کرتے ہیں اور سب سے احترام کی توقع بھی کرتے ہیں، غلط کام کریں گے تو ہم فورا پکڑ لیں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ 2017 سے یہ سب چلتا آ رہاہے ، ماضی کو نہ کھولا جائے ، یہ درست ہے سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی اور شاید یہ عدالت بھی ملوث تھی، ججوں کا خط یہ بتا رہا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ شترمرغ کی طرح گردن زمین میں دبا کر نہیں بیٹھ سکتے، سول جج سے سپریم کورٹ تک اس معاملے پر پورا نظام بنانا ہوگا، عدلیہ میں مداخلت کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے بند کرنا ہوگا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس وقت کے چیف جسٹس کے خلاف کچھ عرصہ قبل ایک ریفرنس آیا تھا، ریفرنس سپریم کورٹ سے خارج ہو گیا تھا، اس وقت کے وزیر اعظم نے کہا کہ ان سے غلطی ہوئی تھی جو کرائی گئی تھی، کیا آپ نے معلوم کیا وہ غلطی کس نے کی تھی اور کیوں کی تھی، کیا وہ معاملہ اس عدالت میں مداخلت کا نہیں تھا، پوچھیں اس وقت کے وزیر اعظم سے وہ کیا تھا اور کیوں تھا؟
جسٹس نعیم اخترافغان نے کہاکہ ایم پی او کا سہارا لیکر عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی حکومت ہی کر رہی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل سات رکنی لارجربنچ نے سماعت کی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے آغاز میں کہا کہ سماعت کا آغاز کیسے کریں؟ پہلے پریس ریلیز پڑھ لیتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جمہوریت کا یہ تقاضا ہے کہ آپ مان لو کہ مخالف جیت گیا ہے، میں انفرادی طورپر وکلا سے نہیں ملتا، بارکے نمائندے کے طورپر ملتا ہوں۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت کو روسٹرم پر بلا لیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی پر کسی قسم کا حملہ ہو گا تو سب سے پہلے میں اور میرے ساتھی کھڑے ہوں گے، عدلیہ کے کام میں مداخلت ہم پسند نہیں کرتے، اگر کسی کا اور ایجنڈا ہے کہ میں ایسا کروں یا ویسے کروں تو چیف جسٹس بن جائیں، ہم دباﺅنہیں لیں گے، ہم ایڈمنسٹریٹولی کام کر رہے ہیں، ہم نے ایگزیکٹیو سے چھپ کر گھر میں میٹنگ نہیں کی، چیمبر میں میٹنگ نہیں کی، ہم نے ایڈمنسٹریٹو حیثیت میں میٹنگ کی، اس میں اور قانون میں فرق واضح ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے چیمبر یا گھر میں نہیں بلکہ سپریم کورٹ میں باقاعدہ میٹنگ کی، میٹنگ میں وزیر اعظم بطور انتظامیہ سربراہ مقننہ بیٹھے تھے، میٹنگ میں دوسری جانب عدلیہ کی انتظامیہ بیٹھی تھی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ تصدق جیلانی نے کہا کہ آپ ٹی او آر فائنل کر کے دیں تو جواب دوں گا، تصدق حسین جیلانی سے دوبارہ پوچھا گیا، پھر نام کا اعلان کیا گیا، حکومت نے درخواست کی تھی کہ کمیشن کے لیے سپریم کورٹ نام دے، یہ تاثر پیدا ہوا کہ جیسے یہ وفاقی حکومت کا بنایا ہوا کمیشن ہے، جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی نے پوچھا کہ کمیشن کو کون سی جگہ دی جائے گی؟ انہیں بتایا گیا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کی بلڈنگ میں کمیشن کام کرے گا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے ایسے نام تجویز کیے جن پر کم سے کم انگلی اٹھائی جائے، سوشل میڈیا پر ان کے متعلق عجیب عجیب باتیں ہوئیں، مجھے بڑی شرمندگی ہوئی، کسی مہذب معاشرے میں ایسی باتیں ہوتی ہیں، سمجھ نہیں آ رہا ہم کس طرف جا رہے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اگر آپ کو کوئی اختلاف ہے تو اپنی باڈیز کو لکھ سکتے تھے، تصدق جیلانی شریف آدمی ہیں، وہ تو جواب نہیں دیں گے، وہ شریف آدمی تھے، انہوں نے انکار کر دیا، ایسے ذاتی حملے ہوئے اور ایسا ماحول بنایا گیا تو کون شریف آدمی ایسی قومی سروس کرے گا؟ سوشل میڈیا سے عجیب عجیب باتیں سابق چیف جسٹس کے بارے میں شروع کر دی گئیں، مجھے شرمندگی ہو رہی تھی کہ ایک شریف آدمی جسے ہم نے کمیشن کے لیے نامزد کیا تھا اس پر حملے شروع ہو گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں، میں نے ہر موقع پر مشاورت کی ہے، کیا ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمیں اس ملک اور قوم کو برباد کرنا ہے؟ آئین کو پڑھنا ہم نے چھوڑ دیا ہے، وزیر اعظم ایڈمنسٹریٹر ہیڈ بھی ہیں اور ایک حد تک مقننہ کے بھی ہیڈ ہوتے ہیں، جب سے چیف جسٹس بنا کہتا ہوں اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے، ہمارے پاس آئین میں کمیشن بنانے کا اختیار نہیں، کمیشن بنانے کا اختیار سرکار کا ہے، ہم نے مشورہ کیا اور نام دیئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بات کی چیف جسٹس کو دھمکیاں دینے والے مرزا افتخار کی، کیا آپ نے یہ دیکھا کہ منطقی انجام تک پہنچا کہ نہیں،جسٹس جمال نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب ایک ریفرنس دائر ہوا جس کے بارے میں اس وقت کے وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ غلطی تھی، اس پر کیا کاروائی ہو ،چیف جسٹس نے کہاکہ غلطیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، اب بھی ہو رہی ہیں لیکن ہم نے اپنا احتساب کر کے دکھایا ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ باتیں سب کرتے ہیں کوئی کرنا نہیں چاہتا ، آپ کی حکومت اس کیس کو منطقی انجام تک لے گئی ہوتی تو آپ بات کرتے،
چیف جسٹس نے کہاکہ وہ کیس میرے متعلق ہے نہیں چاہتا تاثر جائے دباو ڈال رہا ہوں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ مجھے بات پوری کرنے دیں، یہ درست ہے سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی اور شاید یہ عدالت بھی ملوث تھی، ججوں کا خط یہ بتا رہا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ چیف جسٹس کےخلاف ریفرنس فیض آباد دھرنا فیصلے کی وجہ سے آیا تھا، ہم نے اپنا احتساب کیا حکومت بھی اپنی ذمہ داری پورے کرے،
جسٹس جمال نے کہاکہ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ مداخلت یہاں رک جائے اور مستقبل میں نہ ہو، جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ شترمرغ کی طرح گردن زمین میں دبا کر نہیں بیٹھ سکتے، سول جج سے سپریم کورٹ تک اس معاملے پر پورا نظام بنایا ہوگا، عدلیہ میں مداخلت کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے بند کرنا ہوگا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ سپریم کورٹ نے ضمانت دی اور اس فیصلے کو ہوا میں اڑا دیا گیا، چیف جسٹس نے کہاکہ چھہتر سال سے ملک کیساتھ یہ ہو رہا ہے،
جسٹس نعیم اخترافغان نے کہاکہ ایم پی او کا سہارا لیکر عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی حکومت ہی کر رہی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ : ہم آنکھیں بند کر کے یہ تاثر نہیں دے سکتے ہمیں کچھ پتہ نہیں، چھہتر سال سے جو ایک سوال تک ججوں کے خط میں وہ آیا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ صدر سپریم کورٹ بار کو سن لیتے ہیں، کیا سپریم کورٹ خود کسی مسڑ ایکس کو مداخلت کا ذمہ دار قرار دے سکتی ہے؟ ہم کیسے تفتیش کریں گے کسی نہ کسی سے انکوائری کرانا ہو گی
چیف جسٹس نے کہا کہ 6 ججز کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو کہا مگر انہوں نے کچھ نہیں کیا، ہائی کورٹ کے پاس اپنے اختیارات ہیں، چیف جسٹس ہائیکورٹ کیوں استعمال نہیں کر رہے؟ ہم مداخلت نہیں کرنا چاہ رہے مگر ہم انہیں ان کے اختیارات سے آگاہ تو کر سکتے ہیں۔بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 29اپریل تک کے لیے ملتوی کردی چیف جسٹس نے بتایاکہ ججز صاحبان چونکہ اگلے دوہفتے دومختلف شہروں میں ہوں گے اس لیے یہ تاریخ رکھی جارہی ہے۔