ممبئی حملہ کیس کے مبینہ ملزم طہور رانا کی بھارت حوالگی کے انڈین سوشل میڈیا پر چرچے، بیہودہ گودی میڈیا نے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے اور شیخی بھگارنے کے ریکارڈ توڑ دیے ،
پاکستاب میں ممبئی حملہ کیس کی جاری تحقیقات میں خود بھارت سب سے بڑی رکاوٹ،
اسلام آباد:ممبئی حملہ کیس کے مبینہ ملزم طہور رانا کی بھارت حوالگی کے بھارتی سوشل میڈیا کے پر چرچے ، گودی میڈیا نے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے اور شیخی بھگارنے کے ریکارڈ توڑ دیے ،
طہوررانا کی آڑ میں گودی میڈیا نے ممبئی حملہ کیس میں پاکستان کو ملوث کرنے کے لیے آسمان سر پر اٹھا لیا جبکہ دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جاری اس کیس کی تحقیقات میں خود بھارت اب تک سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے جس اب تک اس سلسلے میں پاکستان سے رتی برابر بھی تعاون نہیں کیا ،
واضح رہے کہ پاکستان میں اس کیس کی ایف آئی آر ایف آئی اے کے سپیشل انویسٹیگیشن یونٹ (ایس آئی یو) میں 12 فروری 2009 کو درج ہوئی اور تقریبا 16سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن مختلف وجوہات کی بنیاد پر اس کیس کا ٹرائل ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔
اس عرصے کے دوران انسداد دہشت گردی کی عدالت کے کئی ججز اور پراسیکیوٹرز تبدیل ہو چکے ہیں ۔
ذرائع کے مطابق اس کیس کی تحقیقات میں سب سے بڑی رکاوٹ خود بھارت ہے جس کی جانب سے طویلہ عرصہ گزر جانے کے باوجود نہ تو بیانات کے لیے مطلوبہ افراد پاکستان کے حوالے کیے گئے اور نہ ہی مطلوبہ مواد ، انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ممبئی حملہ کیس میں بھارتی گواہوں کی طلبی کے لیے سمن جاری کیے گئے،
بھارتی گواہوں کو وزارت خارجہ کے ذریعے سمن بھجوائے گئے تھے جس کا بھارت نے ابھی تک جواب نہیں دیا اور ٹرائل کورٹ کو آج تک جواب کا انتظار ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان میں استغاثہ اور دفاع کے وکلا پر مشتمل ایک آٹھ رکنی کمیشن نے مارچ 2012 میں بھارت کا دورہ کیا ، ذرائع کے مطابق اس کمیشن کو نہ تو اجمل قصاب تک رسائی نہیں دی گئی اور نہ ہی اس حملے میں مرنے والے دیگر نو حملہ آوروں کی تفصیلات اسے فراہم کی گئیں تاکہ نادرا اور دیگر ذرائع سے ان کے پاکستانی ہونے کے دعوے کی تصدیق ہو پاتی۔
اس کمیشن کے سربراہ ایڈووکیٹ محمد اظہر چوہدری تھے جو شہادتیں ریکارڈ کرنے دو مرتبہ انڈیا گئے، کمیشن نے بیانات کے لیے 24 گواہوں کے نام دیے لیکن انڈیا کی طرف سے صرف چار لوگ بیانات کے لیے فراہم کیے گئے ۔
جبکہ پاکستانی ٹیم کو جیل میں بند اجمل قصاب سے نہیں ملنے دیا جس سے اس کے اعترافی بیان پر شکوک و شبہات موجود تھے ۔ پاکستانی کمیشن نے ممبئی حملہ کیس کے انکوائری افسر، اجمل قصاب کا اعترافی بیان ریکارڈ کرنے والی خاتون جج اور دو ڈاکٹروں جنھوں نے پوسٹ مارٹم اور میڈیکو لیگل کیے تھے کے بیان ریکارڈ کیے ۔
تحقیقاتی کمیشن کو باقی نو حملہ آوروں میں سے کسی کی شناخت کا ریکارڈ بعدازاں یہاں پاکستان سے نہیں ملا۔کمیشن نے انڈیا سے حملہ آوروں کی ڈی این اے رپورٹس، تصاویر، فنگر پرنٹس، اجمل قصاب کا اعترافی بیان، حملہ آوروں کی آپس میں بات چیت کا ریکارڈ، ان سات موبائل سموں کی تفصیلات جو حملہ آوروں کے زیر استعمال تھیں، آئی ڈی کارڈ، تمام حملہ آوروں کی تصاویر سمیت باقی معلومات مہیا کرنے کی استداعا کی لیکن ابھی تک یہ معلومات بھی پاکستان کو فراہم نہیں کی گئیں ۔ جبکہ اجمل قصاب کا انڈیا کا پاسپورٹ تھا، وہیں کا کارڈ تھا اور اس کی زبان بھی لوکل ہندی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کیس کا فیصلہ جب بھی ہوا تو وہ نامکمل شواہد کی بنیاد پر ہو گا اور اس کی وجہ صرف اور صرف انڈیا کا عدم تعاون ہو گا،
دوسری جانب طہور رانا جو کینیڈین تاجر ہے کو امریکہ سے خصوصی پرواز کے ذریعے جمعرات کو انڈیا لایا گیا اور اگلے ہی روز اس کا 18 روزہ ریمانڈ منظور کر لیا گیا۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اریکی عدالت طہور رانا کو ممبئی حملہ کیس میں بے قصور قرار دے چکی ہے،