اسلام آباد(یو این آئی) سپریم کورٹ نے تنقید کی بناءپر صحافیوں کے خلاف جاری نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم دیتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے کو صحافیوں کیساتھ ملاقات کرنے کی ہدایت کر دی۔
ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی
جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ گالم گلوچ الگ بات ہے لیکن ایف آئی اے محض تنقید کی بناءپر کارروائی نہ کرے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ کسی صحافی کے خلاف تنقید پر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
چیف جسٹس نے اہم ریمارکس دیے کہ تنقید روکنے کے سخت خلاف ہوں کیونکہ آزادی صحافت آئین میں ہے، میرا مذاق بھی اڑائیں مجھے کوئی فکر نہیں لیکن عدلیہ کا مذاق اڑائیں گے تو ملک کا نقصان ہوگا۔ سپریم کورٹ پر تنقید ضرور کریں لیکن آئین میں بھی کچھ حدود ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، تھمبنیل پر جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا، یہ بہت عجیب ہے۔ فیئر تنقید میں مسئلہ نہیں لیکن جو زبان استعمال کی جاتی ہے وہ غلط ہے۔
قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ گلام گلوچ غلط ہے لیکن تنقید پر ممانعت نہیں، اگر کسی صحافی کو صرف تنقید کرنے پر پکڑا جائے تو یہ غلط ہے، مجھے تو گالم گلوچ سے بھی فرق نہیں پڑتا لیکن حدود ہونی چاہیں، ہم ان کو بھی حقوق دلائیں گے جو ہمارے سامنے نہیں ہیں، خود پر تنقید کو ویلکم کرتا ہوں، کچھ باتیں قائد اعظم کی کر لیتے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے تو قائد اعظم کا بھی مذاق اڑایا ہے، صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کا سوموٹو بھی مقرر کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ارشد شریف کا کیس ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر ساتھ ہی لگا دیں، اس وقت کوئی ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جو ارشد شریف کے کیس میں جاری احکامات سے متصادم ہوں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یوٹیوب کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں ہوتا، ٹی وی کے لیے تو پیمرا کا ضابطہ اخلاق موجود ہے اور جو کچھ یوٹیوب کے تھمب نیل میں ہوتا ہے وہ ویڈیو میں نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نفرت انگیز تقاریر کیساتھ کچھ اور چیزیں بھی صرف پاکستان میں ہی ہوتی ہیں، پولیو ورکرز کو قتل کر دیا جاتا ہے اور خواتین کے اسکولوں میں بم مارے جاتے ہیں، انتہاءپسند سوچ کیخلاف حکومت کیوں کچھ نہیں کرتی؟ خواتین کو ووٹ ڈالنے اور پولیو قطروں سے روکنے والوں کو کیوں نہیں پکڑا جاتا؟ جڑانوالہ میں دیکھیں کیا ہوا، سب نفرت کا نتیجہ ہے، ان لوگوں کو استعمال کیا جاتا رہا ہے اب یہ اژدھا بن گئے ہیں، خواتین کو ووٹ سے روکنے کا فتویٰ دینے والے کو کیوں نہیں پکڑا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کیس بھلے نہ چلائیں ہم آپ کو بنیادی حقوق دلوائیں گے، آپ پر دباو¿ ہے تو کیس واپس نہیں لینے دیں گے۔
اسد طور نے جواب میں کہا کہ مجھ پر کسی قسم کا کوئی دباو¿ نہیں ہے، سال 2021 میں جب درخواست دائر ہوئی تو سمجھا تھا کہ مطیع اللہ جان بھی ساتھ ہیں، جس انداز میں کمرہ عدالت میں درخواست دی گئی وہ طریقہ کار درست نہیں۔
عدالت نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی