اسلام آباد ۔سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں عام شہریوں کے مقدمات چلانے سے متعلق فیصلے کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

آج کی کارروائی کے دوران، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل مکمل کیے، جس کے بعد آئینی بینچ نے عندیہ دیا کہ مقدمے کا فیصلہ رواں ہفتے سنایا جائے گا۔

یہ مقدمہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے سنا۔ دوران سماعت، اٹارنی جنرل نے 9 مئی کو چار گھنٹوں میں 39 عسکری تنصیبات پر کیے گئے حملوں کی تفصیل پیش کی۔

اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان حملوں کے دوران تحمل کا مظاہرہ کرنے والے تین اعلیٰ فوجی افسران کو بغیر پنشن کے ریٹائر کیا گیا۔

اٹارنی جنرل کے مطابق، 9 مئی کو دوپہر 3 بجے سے شام 7 بجے کے دوران 39 فوجی مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان میں 23 حملے پنجاب، 8 خیبر پختونخوا اور ایک سندھ میں ہوا۔ جی ایچ کیو، کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ، میانوالی ایئر بیس، فیصل آباد، سرگودھا، اور راولپنڈی میں آئی ایس آئی دفاتر پر بھی حملے کیے گئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ منظم منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ شام 5:40 بجے کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا گیا، اور اس کے بعد کور ہیڈکوارٹر تقریباً ساڑھے تین گھنٹے تک غیر فعال رہا۔ انہوں نے پرانے سیاسی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بھی بڑے سانحات ہوئے لیکن ایسا ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا۔

انہوں نے کہا کہ ماضی کی جمہوری تحریکوں میں تمام جماعتوں کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا، کئی رہنما قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے، لیکن نو مئی جیسا اقدام کبھی نہیں اٹھایا گیا۔

جناح ہاؤس پر حملے میں غفلت پر فوج نے اپنے ادارہ جاتی قواعد کے تحت کارروائی کی۔ تین سینئر افسران کو پنشن اور دیگر مراعات کے بغیر سبکدوش کیا گیا، جن میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک بریگیڈیئر اور ایک لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جرم کے وقوع پذیر ہونے پر کوئی شک نہیں، اصل معاملہ اپیلوں پر غور کا ہے۔ اٹارنی جنرل نے وضاحت دی کہ بعض سوالات نہ ہونے کے باوجود ان پر بات کرنا ضروری تھا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ کیا جناح ہاؤس کا دروازہ زبردستی کھولا گیا یا اندر سے کسی نے مدد کی؟ اگر ایسا ہوا ہو تو یہ ملی بھگت کے زمرے میں آئے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اس نکتے پر مزید معلومات فراہم کریں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا نو مئی کے واقعات دانستہ جرم تھے یا صرف احتجاج کی نیت سے شروع ہوئے اور حد سے تجاوز کر گئے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ یہ مکمل طور پر مجرمانہ کارروائیاں تھیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ اگر نو مئی کے حقائق میں گئے تو یہ اپیل اور ٹرائل کے عمل کو متاثر کر سکتے ہیں، اس لیے ان کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں۔ انہوں نے مزید سوال کیا کہ کیا کور کمانڈر لاہور بھی بغیر پنشن ریٹائر کیے گئے جنرل تھے؟ جواب میں اٹارنی جنرل نے تصدیق کی۔

جسٹس نعیم افغان نے دریافت کیا کہ آیا کور کمانڈر لاہور ٹرائل کورٹ میں بطور گواہ پیش ہوئے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب اپیل عدالت میں آئے گی تو سب معلوم ہو جائے گا۔ عدالت نے مشورہ دیا کہ ایسے سوالات میں نہ الجھیں جن کے جوابات دینا مشکل ہو۔

جسٹس مسرت ہلالی نے آئینی اور قانونی ترامیم میں فرق پر سوال اٹھایا اور کہا کہ اگر آئین میں ترمیم ہو سکتی ہے تو قانون میں کیوں نہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف 86 افراد اپیلیں دائر کر چکے ہیں، باقیوں کو اپیل کے لیے وقت دیا جائے گا۔

سماعت کے اختتام پر عدالت نے انٹرا کورٹ اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ مختصر فیصلہ رواں ہفتے جاری کیا جائے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ آئینی بینچ کی آبزرویشن پارلیمان کے لیے راہنمائی کا کام کرے گی، جیسا کہ سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق عدالتی فیصلے میں ہوا تھا۔