اسلام آباد ۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی اشتعال انگیز حرکات کے باوجود پاکستان نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ بھارت اس واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا اور پاکستان کو اس سانحے سے جوڑنے کی سازش کر رہا ہے۔
یہ بات وزیراعظم نے ہفتے کے روز وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں ترکیہ کے سفیر ڈاکٹر عرفان نیزیروگلو سے ملاقات کے دوران کہی۔ وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق، ملاقات میں دونوں ممالک کے تعلقات، خطے کی صورت حال اور پہلگام واقعے کے تناظر میں بھارت کے الزامات پر گفتگو ہوئی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے 22 اپریل 2025 کو اپنے حالیہ دورہ انقرہ کا حوالہ دیا، جہاں دونوں رہنماؤں نے مختلف شعبوں میں پاک-ترک تعاون کو فروغ دینے پر بات چیت کی تھی۔
انہوں نے صدر اردوان کا جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی حمایت اور خطے میں تحمل کا مشورہ دینے پر شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ترکیہ کی یہ حمایت دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ اور برادرانہ تعلقات کی مظہر ہے۔
پہلگام واقعے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے واضح کیا کہ پاکستان نے ہمیشہ ہر قسم کی دہشت گردی کی کھل کر مذمت کی ہے اور انسدادِ دہشت گردی کے لیے گراں قدر قربانیاں دی ہیں، جن میں 90 ہزار قیمتی جانیں اور 152 ارب امریکی ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے حالیہ اقدامات، پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں سے عالمی توجہ ہٹانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ بھارت ابھی تک اس واقعے کی شفاف، غیر جانبدار اور قابلِ اعتماد بین الاقوامی تحقیقات کی پاکستانی پیشکش کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ایسی کسی بھی تحقیقات میں مکمل تعاون کرے گا، اور اگر ترکیہ اس عمل میں شریک ہوتا ہے تو اسے خوش آمدید کہا جائے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ پاکستان اس وقت اپنی اقتصادی بحالی اور ترقی پر بھرپور توجہ دے رہا ہے، جس کے لیے پرامن علاقائی ماحول ناگزیر ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے اور کشیدگی سے اجتناب کو ترجیح دیتا ہے۔
ترک سفیر ڈاکٹر عرفان نیزیروگلو نے وزیراعظم کو یقین دلایا کہ ترکیہ پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے خطے میں تناؤ کم کرنے اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کے تحمل اور تدبر کی پالیسی کو سراہا۔