سابق وزیرِاعظم عمران خان نے سربراہِ فوج جنرل عاصم منیر کے نام دوسرا کھلا مراسلہ ارسال کر دیا۔
یہ مکتوب عمران خان کے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شائع کیا گیا۔ اپنے خط میں انہوں نے تحریر کیا کہ ’’میں نے ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے پیشِ نظر خلوصِ نیت کے ساتھ آرمی چیف (آپ) کے نام یہ مراسلہ تحریر کیا، تاکہ فوج اور عوام کے درمیان پیدا ہونے والے فاصلے کو کم کیا جا سکے، مگر اس خط کا جواب انتہائی غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ انداز میں دیا گیا۔‘‘
عمران خان نے مزید لکھا کہ بطور سابق وزیرِاعظم اور ملک کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت کے قائد، میں نے اپنی پوری زندگی بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا وقار بلند کرنے میں بسر کی ہے۔ 1970ء سے لے کر آج تک میری 55 سالہ عوامی زندگی اور 30 سالہ محنت سے کمائی گئی دولت سب کے سامنے ہے۔ میرا جینا مرنا صرف پاکستان کے لیے ہے۔
سابق وزیرِاعظم نے واضح کیا کہ انہیں محض اپنی فوج کی ساکھ، عوام اور فوج کے بڑھتے فاصلے اور اس کے ممکنہ اثرات کی تشویش ہے، جس کی وجہ سے انہوں نے یہ خط تحریر کیا۔ ان کے نشاندہی کردہ 6 نکات پر اگر عوامی رائے لی جائے تو 90 فیصد شہری ان کی تائید کریں گے۔
عمران خان نے اپنے مراسلے میں لکھا کہ پہلے اڈیالہ جیل کے دیانت دار سپرنٹنڈنٹ اکرم کو اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کیونکہ وہ قانون کی پاسداری کرتے اور جیل ضوابط پر عمل درآمد یقینی بناتے تھے۔ اب بھی تمام جیل عملے کو دھمکایا جا رہا ہے، بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے مجھ پر ہر ممکنہ دباؤ ڈالا گیا، حتیٰ کہ مجھے انتہائی سخت قید میں رکھا گیا۔ مجھے 20 روز تک مکمل تنہائی میں رکھا گیا، جہاں سورج کی روشنی تک نہیں پہنچتی تھی۔
انہوں نے مزید لکھا کہ پانچ روز تک میرے سیل کی بجلی منقطع رکھی گئی، جس کے باعث میں مکمل تاریکی میں رہا۔ ورزش کے آلات اور ٹی وی تک چھین لیے گئے اور مجھے اخبار پڑھنے کی سہولت سے بھی محروم رکھا گیا۔ کتابوں تک رسائی بھی منقطع کر دی جاتی ہے۔ ان 20 دنوں کے بعد مزید 40 گھنٹے لاک اپ میں رکھا گیا۔ گزشتہ چھ ماہ میں میرے بیٹوں سے محض تین بار بات کروائی گئی، اور اس معاملے میں بھی عدالتی احکامات کو نظر انداز کر کے مجھے میرے بنیادی اور قانونی حق سے محروم رکھا گیا۔
تحریک انصاف کے بانی نے مزید کہا کہ میری جماعت کے افراد، جو دور دراز علاقوں سے مجھ سے ملنے آتے ہیں، انہیں بھی عدالتی احکامات کے باوجود ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی۔ گزشتہ چھ ماہ میں چند گنتی کے افراد ہی مجھ سے مل سکے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود میری اہلیہ سے ملاقات نہیں کروائی جا رہی اور انہیں بھی قیدِ تنہائی میں رکھا گیا ہے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ دباؤ کے تحت کرائی گئی چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتی نظام پر قبضہ جما لیا گیا ہے۔ اس عدالتی ہیرا پھیری کا مقصد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، انتخابی دھاندلیوں کو چھپانا اور میرے خلاف مقدمات میں حسبِ منشا فیصلے کروانے کے لیے ’’پاکٹ ججز‘‘ کی بھرتی کرنا ہے، تاکہ کوئی بھی منصفانہ فیصلہ نہ دے سکے۔ میرے تمام کیسز کے فیصلے دباؤ کے ذریعے کروائے جا رہے ہیں، اور مجھے غیر قانونی طور پر چار سزائیں سنائی گئی ہیں۔
عمران خان نے انکشاف کیا کہ ان کے خلاف فیصلے دینے کے لیے جج صاحبان پر اس قدر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ ایک جج کا بلڈ پریشر پانچ بار خطرناک حد تک بڑھ گیا اور اسے جیل اسپتال منتقل کرنا پڑا۔ اس جج نے میرے وکیل کو بتایا کہ انہیں اور ان کی اہلیہ کو سزا دلوانے کے لیے ’’اوپر‘‘ سے شدید دباؤ ہے۔