بھارت میں انتہا پسند ہندووں کی جانب سے ایک اور مسجد کو منہدم کرنے کی سازش تیار،
بعض ہندووں کی جانب سے سنبھل کی جامع مسجد کو ہری ہر مندر قرار دینے کے لیے مقامی عدالت میں درخواست دائر ، عدالت کا بھی فوری سروے کا حکم
نئی دہلی — بھارت میں انتہا پسند سوچ کے حامل ہندووں کی جانب سے ایک اور تاریخی مسجد کو منہدم کرنے کی سازش تیار، بعض ہندووں کا سنبھل کی جامع مسجد کا ہری ہر مندر ہونے کا دعویٰ ، مقامی عدالت ہندوؤں کو پوجا کرنے کی اجازت طلب، عدالت کی جانب سے بھی مسجد کے فوری سروے کا حکم جبکہ سپریم کورٹ نے سروے سے متعلق مزید کارروائی پر حکم امتناع جاری کر دیا ہے اور جامع مسجد کمیٹی کو الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کر تے ہوئے سماعت 6 جنوری تک ملتوی کر دی۔
جامع مسجد کمیٹی نے مقامی عدالت کی جانب سے 19 نومبر کو مسجد کے سروے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور عدالت کو مزید کارروائی سے روکنے کی اپیل کی تھی۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس پی وی سنجے کمار کے بینچ نے یہ ہدایت بھی کی کہ سروے کمشنر کی رپورٹ سیل بند رکھی جائے اور اس دوران اسے کھولا نہ جائے۔
بینچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کو ہدایت کی کہ جامع مسجد کمیٹی کی پٹیشن کو کام کاج کے تین دنوں کے اندر سماعت کے لیے اِن لسٹ کیا جائے۔
عالت نے اتر پردیش حکومت کو ہدایت کی کہ امن و امان برقرار رکھا جائے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے میں سرِدست کوئی رائے دینا نہیں چاہتے۔ ہمیں اس معاملے میں غیر جانب دار رہنا ہے۔
مسجد کمیٹی کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے عدالت کو بتایا کہ ٹرائل کورٹ کا حکم عوامی فساد کا سبب بن سکتا ہے۔
ان کے بقول اس وقت ملک بھر میں اس قسم کے 10 مقدمات زیر التوا ہیں۔ ایسے مقدمات میں یہ طریقۂ کار اپنایا جاتا ہے کہ پہلے دن ہی سروے کمشنر مقرر کر دیا جاتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق مقامی عدالت نے بعض ہندو فریقوں کی جانب سے 19 نومبر کو عدالت میں درخواست کر کے جامع مسجد کو ہری ہر مندر ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور اس میں ہندوؤں کو پوجا کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔
عدالت نے اسی روز سماعت کر کے ایڈووکیٹ کمشنر مقرر کیا اور سروے کرنے کا حکم دے دیا۔ ایڈووکیٹ کمشنر نے اسی روز سروے کیا۔ تاہم وہ ایک ٹیم کے ساتھ 24 نومبر کو صبح سات بجے دوبارہ سروے کرنے پہنچے جس پر تشدد پھوٹ پڑا جس میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔
جامع مسجد کمیٹی نے اپنی درخواست میں کہا کہ مقامی عدالت کی جانب سے ہندو فریقوں کی درخواست پر جلد بازی میں سماعت کر کے اسی روز سروے کا حکم دیا گیا اور اسی روز سروے بھی کر لیا گیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ بمشکل چھ گھنٹے کے نوٹس پر دوسرا سروے کیا گیا جس سے وسیع پیمانے پر مذہبی کشیدگی پیدا ہوئی اور ملک کے سیکولر اور جمہوری کردار کو خطرہ لاحق ہو گیا۔