واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جنپنگ کے درمیان آخرکار ٹیلیفون پر رابطہ قائم ہو گیا، جس سے دونوں طاقتور ممالک کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی کے خاتمے کی امیدیں پیدا ہو گئی ہیں۔
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق، دونوں رہنماؤں نے اپنی گفتگو کو "مثبت” اور "حوصلہ افزا” قرار دیا، جس میں خاص طور پر تجارتی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ چینی صدر شی جنپنگ نے اُنہیں اور خاتون اوّل کو چین کا دورہ کرنے کی دعوت دی، جس کے جواب میں ٹرمپ نے بھی چینی صدر کو امریکہ آنے کی دعوت دی۔ انہوں نے مزید کہا، "دو عظیم اقوام کے رہنماؤں کے طور پر، ہم اس متوقع دورے کے لیے پُر جوش ہیں۔”
ٹرمپ نے گفتگو کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا کہ دونوں ملکوں کے اقتصادی ماہرین جلد رسمی مذاکرات کا آغاز کریں گے۔ ان کے مطابق اس مکالمے کا مکمل فوکس تجارتی مسائل پر تھا، اور ایران یا یوکرین جیسے دیگر بین الاقوامی معاملات پر بات نہیں ہوئی۔
اس دوران امریکی صدر نے خاص طور پر نایاب معدنیات کی برآمد پر چین کی پابندیوں کا ذکر کیا، جو اپریل میں نافذ کی گئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے دونوں فریقین کے درمیان پیش رفت ہوئی ہے اور اب ان مواد سے متعلق پائے جانے والے خدشات ختم ہو جانے چاہئیں۔
چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر شی جنپنگ نے زور دیا کہ دونوں ممالک کو مساوات، باہمی احترام اور مشترکہ مفاد کے اصولوں پر مبنی تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔
چینی صدر نے امریکا پر زور دیا کہ وہ چین کے خلاف کیے گئے "منفی اقدامات” کو واپس لے، تاکہ دوطرفہ تعلقات میں بہتری لائی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین-امریکا تعلقات کو ایک بڑے جہاز کی مانند احتیاط سے اور درست سمت میں لے جانے کی ضرورت ہے، جس کے لیے ہوشیاری اور سمجھداری سے راہنمائی درکار ہے۔
یہ اہم گفتگو ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب عالمی معیشت غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے، اور اگر یہ بات چیت عملی اقدامات میں تبدیل ہوتی ہے، تو اس کے اثرات نہ صرف امریکہ اور چین بلکہ عالمی مالیاتی منڈیوں پر بھی مثبت پڑ سکتے ہیں۔