اسلام آباد: وفاقی حکومت نے بجلی کی قیمت میں 6 روپے فی یونٹ کمی کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے اور اسے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ شیئر کر دیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتیں 2800 ارب روپے کی فنڈنگ کا بندوبست کریں گی۔

اس منصوبے کے مطابق وفاقی حکومت 1400 ارب روپے کی فنڈنگ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام سے کٹوتی، بجٹ میں کچھ شعبوں کو دی جانے والی سبسڈیز ختم کر کے، کچھ کمرشل قرضے لے کر اور کچھ رقم سرکاری اداروں کے منافع سے نکال کر فراہم کرے گی۔

باقی 1400 ارب روپے میں سے نصف رقم چاروں صوبائی حکومتیں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کے تحت اپنے حصے کی رقم سے فراہم کریں گی۔ تاہم خیبر پختونخوا کی حکومت نے این ایف سی سے اپنے حصے کی رقم دینے سے انکار کر دیا ہے اور دیگر صوبوں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ وزارت خزانہ بھی اس منصوبے کی ذمہ داری لینے سے انکار کر رہی ہے، لیکن وزیراعظم آفس اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔

اس منصوبے کے تحت 2800 ارب روپے کی ادائیگی کرکے ناکارہ پاور پلانٹس بند کر دیے جائیں گے، آئی پی پیز سے معاہدے ختم کیے جائیں گے یا ان کی شرائط میں نرمی کی جائے گی۔ وفاقی حکومت اس حوالے سے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبے اس منصوبے میں حصہ لینے سے کترا رہے ہیں کیونکہ خیبر پختونخوا کے سوا باقی تمام صوبوں کے بجٹ پہلے ہی کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں، اور اس منصوبے کا سارا فائدہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت کو ہوگا۔

رپورٹ کے مطابق  وزارت توانائی کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت ابھی تک بے نتیجہ رہی ہے۔ خیبر پختونخوا کے مشیر مالیات مزمل اسلم نے   بتایا کہ ان کا صوبہ پہلے ہی 6 سے 7 روپے فی یونٹ سستی بجلی پیدا کر رہا ہے، جبکہ وہ اپنے رہائشی اور صنعتی صارفین کے لیے 70 روپے فی یونٹ تک بجلی خرید رہا ہے۔ وہ وفاقی حکومت سے اتنے مایوس ہو چکے ہیں کہ اب وہ اپنے پاور پراجیکٹس لگانے، الگ ٹرانسمیشن لائنیں بچھانے اور اپنی ریگولیٹری اتھارٹی بنانے پر غور کر رہے ہیں۔

پاکستانی صارفین کے لیے بجلی کی قیمتیں اس وقت ناقابل برداشت ہو چکی ہیں کیونکہ وہ 76 روپے فی یونٹ تک ادا کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے 200 یونٹ تک کے صارفین کو 51 فیصد تک عارضی ریلیف فراہم کیا ہے، لیکن اکتوبر تک انہیں مکمل ادائیگی کرنا پڑے گی۔ پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ قیمت 44 روپے ہے، جسے حکومت 38 روپے فی یونٹ تک کم کرنا چاہتی ہے۔ 301 سے 700 یونٹ تک استعمال کرنے والے صارفین مختلف ٹیکسوں کے ساتھ 58 روپے فی یونٹ ادا کر رہے ہیں۔

اس سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو 64 روپے فی یونٹ جبکہ کمرشل صارفین کو 76 روپے فی یونٹ بجلی خریدنی پڑتی ہے۔ حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ سرکاری پاور پلانٹس کے منافع میں کٹوتی کرکے اور 12 انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز سے ان کی شرائط میں ترامیم کرکے بجلی کی قیمتوں میں کمی کرنا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض ناکارہ پاور پلانٹس کو پوری ادائیگی کرکے ان کے ساتھ معاہدے ختم کیے جائیں گے۔

اس کے علاوہ، بعض پاور پلانٹس کے مقامی قرضے ادا کیے جائیں گے اور 2300 ارب روپے کے گردشی قرضے کو ختم کیا جائے گا۔ سرکاری پاور پلانٹس کے منافع میں کمی سے 1.15 روپے فی یونٹ بجلی سستی کرنے کی گنجائش نکلے گی۔

اگر حکومت یکمشت 2300 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو بجلی کی قیمت 2.83 روپے فی یونٹ سستی ہو سکتی ہے۔ مگر بجلی کے لائن لاسز، چوری اور سبسڈیز کی ریکوری کے مسائل بدستور موجود رہیں گے۔