یروشلم (مانیٹرنگ ڈیسک) فلسطین میں برسرپیکار مزاحمتی گروپ حماس نے غزہ میں جنگ بندی کی تجویز منظور کرلی تاہم اسرائیل رفح میں ہر صورت آپریشن کے فیصلے پر اڑا ہوا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس نے قطر اور مصر کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کا تجویز کردہ معاہدہ قبول کرتے ہوئے لڑائی سے دستبردار ہونے کا عندیہ دے دیا۔
حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے قطر اور مصر کو 7 ماہ کی لڑائی کے بعد جنگ بندی کی تجویز ماننے سے متعلق آگاہ کردیا ہے۔ حماس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ نے اس حوالے سے قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بند عبدالرحمان الثانی اور مصری انٹیلی جنس کے وزیر عباس کامل کو آگاہ کردیا اور بتایا کہ دونوں ممالک کی جنگ بندی کی تجویز کو ہم تسلیم کرتے ہیں۔
تاہم ابھی تک جنگ بندی کی شرائط سامنے نہیں آٗئیں اور اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ وہ اپنے آخری مغوی کی بازیابی تک کسی قسم کی جنگ بندی پر غور نہیں کررہے اور اپنے شہریوں کے لیے جو ہوسکے گا وہ کرگزریں گے۔
انہوں نے کہا کہ رفح حماس کا محفوظ اور مضبوط گڑھ ہے جس کو ختم کرنا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیلی فورسز نے ایک روز قبل رفح کے شہریوں کو علاقہ چھوڑنے اور بڑے پیمانے پر آپریشن کا عندیہ دیا تھا۔
حماس کے رہنما خلیل الحیا نے الجزیرہ کو تصدیق کی کہ جنگ بندی کے معاہدے کے تین مراحل ہیں، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ ثالثوں نے حماس کو بتایا ہے کہ امریکی صدر معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں تاہم امریکا نے معاہدے میں کسی بھی قسم کے کردار کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
الحیا نے مزید کہا کہ پہلے مرحلے میں غزہ میں بے گھر فلسطینیوں کی ان کے گھروں کو واپسی، غزہ میں امداد، ایندھن اور امدادی سامان کی ترسیل بحال کی جائے گی۔ اس کے علاوہ اسرائیلی مغوی ہر ایک خاتون کے بدلے 50 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ دوسرے مرحلے میں فلسطینی قیدیوں اور اسیر مردوں کو اسرائیل رہا کرے گا تیسرے مرحلے میں تین سے پانچ سال کی مدت کے لیے تعمیر نو کے منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز شامل ہوگا۔
فلسطینی سرکاری ایجنسی وفاد کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ اسرائیلی حکومت غزہ میں جنگ روکے گی اور انخلا کرے گی، پہلے دن سے غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ اولین ترجیح ہے۔محمود عباس نے عالمی برادری سے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے اور فلسطینی سرزمین سے اسرائیلی قبضے کو ختم کروانے مطالبہ بھی دہرایا اور کہا کہ اس پر عملدرآمد اب ناگزیر ہوچکا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے میتھیو ملر نے ایک بار پھر اسرائیل کی جانب سے رفح پر حملے کی مخالفت کرتے ہوئے نیتن یاہو پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس سے باز رہیں کیونکہ اس صورت میں جنگ شدید ہوسکتی ہے۔میتھیو ملر نے کہا کہ ‘امریکا رفح میں آپریشن کی حمایت کسی صورت نہیں کرے گا، شہر میں پھنسے 1.5 ملین شہریوں کی حفاظت کے لیے کوئی قابل اعتبار منصوبہ بھی نہیں ہے‘۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے اسرائیلی فورسز کی جانب سے رفح سے شہریوں کی بے دخلی کے الٹی میٹم پر بھی تشویش کا اظہار کیا جبکہ انہوں نے حماس کی جنگ بندی پر رضامندی پر کہا کہ اب اسرائیل کی جانب سے رفح پر کسی بھی قسم کا ایکشن غیر ضروری ہوگا اور پہلے بھی ہم اس کی حمایت نہیں کرتے۔
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ سے رابطہ کیا اور جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اب گیند اسرائیل کے کورٹ میں ہے۔انہوں نے اسماعیل ہنیہ سے ہونے والی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حماس نے مصر اور قطر کی طرف سے پیش کردہ تجویز مانی، جس کے تحت اسرائیلی فورسز حملے روکنے، قیدیوں کے تبادلے، ناکہ بندی کو ختم کرے گی۔ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ حماس نے جنگ بندی کی تجویز ماننے کا اعلان کردیا جس کے بعد اب گیند اسرائیل کے کورٹ میں ہے، ہماری مکمل ہمدردیاں اور سپورٹ فسلطین کے عوام کے ساتھ ہیں‘۔