نیویارک: پاکستان کی ایک اہم سفارتی پیش رفت کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں جموں و کشمیر کے دیرینہ مسئلے اور خطے میں حالیہ کشیدگی کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اس اجلاس کے انعقاد میں پاکستان کے اقوام متحدہ مشن نے وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کی قیادت میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ اجلاس پانچ سال بعد پہلی بار پاکستان اور بھارت کے مابین تناؤ، بھارت کے یکطرفہ اقدامات اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر عالمی توجہ کا مظہر ہے۔ اجلاس میں سلامتی کونسل کے تمام 15 رکن ممالک، جن میں پانچ مستقل اراکین بھی شامل تھے، نے شرکت کی۔

پاکستانی مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے اجلاس کے دوران بھارت کی اشتعال انگیز بیانات، سندھ طاس معاہدے کی معطلی، اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تفصیلی بریفنگ دی۔ انہوں نے واضح کیا کہ بھارت کا 22 اپریل کو پہلگام میں پیش آئے واقعے سے متعلق پاکستان پر لگایا گیا الزام بے بنیاد ہے، جس کے کوئی شواہد موجود نہیں۔

پاکستان نے نہ صرف ان الزامات کو سختی سے رد کیا بلکہ پہلگام واقعے کی شفاف، غیر جانبدار اور بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش بھی کی۔ پاکستانی مشن نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت کی حالیہ کارروائیاں نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی شدید خطرہ ہیں۔

عاصم افتخار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں پر مکمل عملدرآمد اور کشمیری عوام کو حق خودارادیت دیے جانے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کا قیام مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے ہی ممکن ہے۔

پاکستان نے یہ مؤقف اپنایا کہ باہمی عزت، خودمختاری اور بین الاقوامی اصولوں کی بنیاد پر بھارت سے بات چیت کے لیے ہمیشہ تیار ہے۔ ساتھ ہی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ موجودہ کشیدگی کا نوٹس لے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔