(میرے قلم سے)
تحریر ۔۔ ابن سرور۔۔
کل جماعتی حریت کانفرنس جموں وکشمیر بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں حالیہ انتخابات کرانے کو ڈھونگ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے،کل جماعتی حریت کانفرنس جموں وکشمیر کے مودی سرکارتمام حریت قیادت کو جیلوں میں قید کرکے مقبوضہ کشمیر میں دس لاکھ سنگینوں کے سائے میں انتخابات کے حوالے سے کہا کہ بی جے پی کے سبز باغوں اور مختلف قسم کے ہتھکنڈوں نے بہت سارے لوگوں کوخود فریبی میں مبتلا کر دیا جس کی وجہ سے سیاسی فراست طاق نسیاں کردی گئی ہے اور ہندوستانی قابض حکام کے ماضی میں کئے گئے وعدوں اور ظالمانہ حربوں کوذہنوں سے نکالا جارہا ہے، ہندو توانسل پرست نظریات کی علمبرداردہلی کی بی جے پی سرکارنے5 اگست 2019 کے اعلان ادغام کے 5 سال بعد الیکشن کا ڈرامہ دکھانے اور خود توڑی گئی ریاست پر برسراقتدار آنے کا ارادہ کر لیا ہے،اس سلسلے میں اس نے ان سالوں میںوہ تمام جارحانہ ہتھکنڈے عمل میں لائےجو اس کے جمہوری دعوؤں کے لئے شرمناک ثابت ہوئےہیں،جموں و کشمیر اور لداخ کا تاریخی ریاستی درجہ منہدم کر کے اس کو دو ٹکڑوں میں خود فریبی سے ضم کر دیا، آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے اور مستقل ریاستی باشندگان کا قانون ختم کر دیا،نئی حلقہ بندیاں اپنی من مانی سے کرائیں اور کشمیر کا مخصوص ڈومیسائل لاختم کر کے لاکھوں نے ڈومیسائل جاری کر کے غیر ریاستی باشندوں کو شہریت دیکر ریاست میں کشمیریوںکی حیثیت پر اثر ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں،205ریاستی قوانین کالعدم اور 109 ایسے قوانین میں حسب منشا ترامیم کی گئیں، 39ہزار کنال اراضی کو غیر ریاستی باشندوں کے لئے مختص کر دیا گیا،مہاراشٹر ہاؤس کی تعمیر کے لئے زمین حاصل کی گئی، اسلامی اوقاف اور مدارس کو براہ راست قبضے میں لے لیا گیا، اسلامی تمدن مٹانے اور ہندو تہذیب کو فروغ دینے کے لئے نظام تعلیم ہندوانہ بنا دیا گیا، نئے مندروں کی تعمیر اور کٹرہ کے ویشنومندرتک ایکسپریس کوریڈور کوحیرانکن پھرتی سے تعمیر کر کے سیاحوں کو غیر معمولی سہولیات دی گئیں، اردو کی سرکاری اور قومی زبان کی قدیم پوزیشن ہندی کو دے دی گئی، ان تمام غیر جمہوری اقدامات کے خلاف عوامی ردعمل کا مقابلہ کرنے کے لئے حریت قیادت کے علاوہ ہزاروں نوجوانوں کو دور دراز جیل خانوں میں مقید کر دیا گیا اور جاسوسی نظام کو وسیع اور بھیانک بنا دیا گیا، ابلاغ عامہ کے ذرائع کا گلا گھونٹ دیا گیا اور فوٹو جرنلسٹس اور آن لائن مدیروں اور رپورٹروں کومقدمات کے علاوہ نا معلوم عقوبت خانوں میں ڈال دیا گیا، بعض رپورٹروں اور سرگرم ہیومن رائٹس اصحاب کو غائب یا ٹارگٹ کیا گیا، گرفتاریوں اور جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنے کا سلسلہ تا حال جاری ہے،تمام بڑے بڑے کشمیری سرکاری افسروں اور ملازمین پر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی الزام لگا کر انہیں سبکدوش کر دیا گیا،بی جے پی کی کشمیر اور مسلم دشمن روزگار پالیسیوں کی وجہ سے مقبوضہ علاقے میں تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور عوام کو خطرناک معاشی زراعی اور میوہ کاروبار کے بحران کا سامناہے ،سب سے بڑھ کر بی جے پی کامنصوبہ یہ ہے کہ مسلم اکثریتی جموں کشمیر کو ہندو اکثریت میں بدل دیا جائے اور مسئلہ کشمیر کے بے بنیاداور جھوٹےحل کا دعویٰ کیا جائے ۔ یوں ہندوستان سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 91 – 1951 مورخہ 30 مارچ 1951 کی خلاف ورزی کا پھر سے مرتکب ہو کر عالمی قوانین اور بین الاقوامی قرار دادوں کا مذاق اڑا رہا ہے حالانکہ اسکا دعوی ٰہے کہ وہسب سے بڑی عالمی جمہور یہ ہے اور سکیورٹی کونسل کی مستقل رکنیت پر بھی حق جتاتا ہے،جموں وکشمیر کے مسئلے سے متعلق یہ قراردا آج بھی قائم ہے، کسی بھی طرح وجود میں آنے والی اسمبلی کے قیام کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ وہ ریاست کے کسی بھی حصے سے مستقبل کے بارے کوئی فیصلہ لینے کا اختیار رکھتی ہے اور اسے جائز سمجھا جائے گا بلکہ جموں وکشمیر کا مستقبل اس وقت طے شدہ متصور ہوگا جب باشندگان ریاست اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ رائے شماری کے ذریعے سے اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔