The news is by your side.

کمان۔۔۔۔۔(تحریر:عزیر رانا)

0

(عنوان : مشرق وسطی بحران اور تیسری عالمی جنگ)
اسرائیل ایران کشیدگی جو ایک عرصہ سےخاموش خاموش خرامہ خرامہ لفظی گولہ باری کی حد تک چل رہی تھی، اسرائیل نے شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے جس کے نتیجہ میں ایرانی سفارت خانہ کے عملہ اور سیکورٹی افسر کی شہادت کے بعد شدت پکڑ گئی۔ اس واقع کے بعد ایران نےاسرائیل کو باور کردیا تھا کہ وہ اسرائیل کو اس کا بھرپور جواب دے گااور یہ پیغام امریکہ سمیت تمام دنیا کو پہنچ چکا تھا۔ لیکن افسوس اور اورحیرت کی بات یہ ہے کی اسرائیل کے نہتے فلسطینیوں پر یلغار کو چھ ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے اور پھر شام میں ایرانی سفارتخانے پر کھلم کھلا اسرائیل جارحیت پر تمام بین الاقوامی انسانی حقوق اور عالمی امن کے فورمز نے چپ اختیار کئے رکھی اور یہی وجہ تھی آخرکار اپریل 2024ءکو پاسداران انقلاب اسلامی نے عراقی موبلائزیشن فورسز، لبنانی گروپ حزب اللہ اور یمنی حوثی کے ساتھ مل کر اسرائیل پر حملے کیے۔ اس حملے کا کوڈ نام آپریشن وعدہ رکھا گیا جس میں ایران نے ڈرون کروز اور بیلسٹک میزائل استعمال کیے۔ یہ حملے یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیلی فضائی حملے کے جواب میں کیے گئے، جس میں 16 افراد ہلاک ہوئے۔ ایران-اسرائیل پراکسی جنگ کے آغاز کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جوابی حملے کا یہ پہلا براہ راست فوجی تصادم تھا۔ فلسطینی نہتے پر بہادر جوانوں، بچوں، عورتوں، بوڑھوں جنہوں نے رمضان کے بابرکت مہینے میں بھی اسرائیلی جارحیت ظلم کا مقابلہ کیا ان نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ایک بیان اور لب کشائی کا انتظار کرتے رہے انکے اس منفقانہ رویے نے اسرائیل کو اور بے لغام کیا اور بین الاقوامی امن کو خطرے میں ڈال دیا اور دنیا آج تیسری جنگ عظیم کے دھانے پر کھڑی ہے۔ اگرچہ امریکہ نے اسرائیل کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف کسی بھی اسرائیلی حملے میں ساتھ نہیں دے گا اور وہ ایران کے ساتھ اپنی سفارتی کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہتا۔ لیکن ایرانی حملے کے بعد اسرائیلی جنگی کابینہ کے حالیہ فیصلے کے بعد جس میں ایرانی حملے کا موئثر جواب دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اورایران بھی اس حوالے سے واضح کرچکا ہے کہ مزید کسی بھی قسم کی اسرائیلی جارحیت کا جواب مزید سخت ترین ہوگا۔ اگرچہ ایران کے اقوام متحدہ میں نمائندے نے ایک بیان اور اقوام متحدہ میں داخل کئے گے اپنے بیان میں واضح کیا ہے جس میں بین الاقوامی قوانین کا بھی ذکر ہے کہ ایران نے اسرائیل پر حملہ اپنے دفاع اور بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق کیا ہے۔ اس حواے سے مسلم دنیا کی اس حوالے سے خاموشی اور بین الاقوامی طاقتوں بالخصوص برطانیہ کینیڈا ، فرانس اور دوسرے یورپی ممالک کی اسرائیل کی حمایت میں بیان بازی انکے دوغلی پالیسی کی عکاسی کرتی ہے۔ امریکہ اور مغرب کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اب بین الاقوامی سطح پر عوام میں شعور پروان چڑھ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اب عالمی معاشرے نے عالمی امن اوراستحکام کیلئے اسلحہ تنازعات مذہبی، اقتصادی تصادم کے مغربی حربوں کو یکسر مسترد کردیا اور ترقی یافتہ ممالک میں لاکھوں کے اجتماعات انکی اپنی ہی حکومتوں کے خلاف انکی غیر منصافانہ پالیسیوں کے خلاف پیغام ہے۔ اوریہی پیغام سوشل میڈیا پر بھی بڑی حد تک عیاں ہے جو مغرب کے ہی اظہار رائے کی آزدی کے اصول کے استعمال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مشرق وسطی کا بحران تین بڑے ممالک جن میں خود اسرائیل، امریکا بھارت میں ہونے والے انتخابات کی الیکشن مہم کا محور بنا ہوا ہے اور یہ ناکام مہم جو اب انکے گلے پڑ چکا ہے اور اعوامی سطح پر امریکی صدر جو بائیدن کے بنیادی انسانی حقوق کی علمبرداری کے تمام تر عزائم فلسطین ہو یا کشمیر یا یوکرائن کی طویل جنگ سب سہرے انہوں نے بذات خود اپنے گلے میں ڈالے ہیں۔اور دوسری طرف ٹرمپ کو جو بائیدن پر برتری حاصل ہورہی ہے ایسے ہی حالات اور مشکلات اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ہیں، اور انکی مشکلات روزبروز بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ اسرائیلی حکومت کے اندرونی اختلافات کوئی نئی بات نہیں اور نیتن یاہو حکومت کے اختلافات کی اندرونی کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔ نیتن یایو حکومت کے قریبی اتحادی ان سے نالاں دکھائی دیتے ہیں جسکی تازہ مثال انکی وار کیبینٹ کے رکن بینی گینٹز کااچانک وزیراعظم نیتن یاہو کو بتائے بغیر دروہ واشنگٹن ( امریکا) ہے۔ گینٹز کا دورہ امریکا اسرائیلی حکومت کے ضوابط سے متصادم ہے جس کیلئے کسی بھی وزیر کےسفر کیلئے وزیراعظم سے اجازت اور منظوری درکار ہوتی ہے۔دوسری جانب نیتن یاہو کے نقطہ نظر سے امریکہ سمیت اسرائیل کے دوسرے اتحادی بھی نالاں اور ناراض ہیں گزشتہ چھ ماہ سے جاری غزہ جنگ میں نیتن یاہو اپنے اعلان کردہ اہداف کے احصول میں بری طرح ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ طاقت کے اندھا دھند استعمال کے باوجود فلسطینیوں کی بڑھتی ہلاکتوں کے باعث اسرائیلی وزیراعظم سے انکے قریبی اتحادی دور ہورہے ہیں۔ حماس کے ساتھ غزہ میں قیدیوں کی ڈیل میں ناکامی کی وجہ سے نیتن یاہو پر اندرون ملک سے دباو¿ بڑھتا جارہا ہے، اسی طرح بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو انتخابات میں سب سے بڑاچیلنج سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے ہے جس کی قیادت انڈین نیشنل کانگریس کررہی ہے۔ تقریبا دو درجن جماعتوں نے کانگریس سے ہاتھ ملا کر انڈین نیشنل ڈویلپمنٹل انکلوسیو الائنس بنایا ہے۔ دلی میں برسراقتدار عام آدمی پارٹی بھی اس اتحاد کا حصہ ہے جبکہ کئی اہم علاقائی جماعتیں بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں۔ جس سے مودی شدید دباو¿ کاشکار ہیں۔ ادھر ایران کے اسرائیل پر حملے کے بعد اقوام متحدہ میں ایران کے ایلچی نے کہا کہ جوابی حملے کو "مکمل سمجھا جا سکتا ہے”، اور یہ کہ اگر اسرائیل "ایک اور غلطی کرتا ہے” تو ایران "مضبوط اور زیادہ پختہ” اقدامات کے ساتھ جواب دے گا۔ اس نے امریکا پر زور دیا کہ وہ ایران اسرائیل تنازع سے دور رہے۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی ردعمل سامنے آیا ہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیل پر ایرانی حملے کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ فریقین سے مزید کارروائیوں سے گریز کریں۔ خطہ یا دنیا ایک نئی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
خلیجی مجلسِ تعاون (جی سی سی) کے سیکریٹری جنرل جاسم محمد البدیوی نے ایران اسرائیل کشیدگی پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ خلیجی مجلسِ تعاون علاقائی اور عالمی امن برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ لازم ہے کہ صورتِ حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے فریقین کشیدگی روکنے کے لیے انتہائی ضبط و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ جاسم محمد البدیوی نے کہا کہ معاملات کو سفارت کاری کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔ ایران اسرائیل کشیدگی سے خطے کے عوام کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ عالمی برادری علاقائی و عالمی امن برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ چین نے بھی اسرائیل پر ایرانی حملوں کے حوالے سے تشویش ظاہر کی ہے۔ ایک بیان میں چینی حکومت نے کہا کہ فریقین کو غیر معمولی ضبط و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ واضح رہے کہ چین اور اسرائیل کے گہرے سفارتی اور معاشی تعلقات ہیں۔ امریکا نے چینی قیادت سے کہا تھا کہ وہ ایران کو اسرائیل پر حملوں سے باز رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستانی ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کی صورت پر تشویش کا اظہار کیا گیا، کشیدگی میں کمی لانے کے لیے کئی ماہ سے بین الاقوامی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا گیااور کہا گیا کہ تازہ واقعات سفارت کاری کی ناکامی ہیں۔
(یہ کالم نگار کے اپنے خیالات ہیں،اس سے ادارے کامتفق ہونا ضروری نہیں)

Please follow and like us:
Pin Share
Leave A Reply

Your email address will not be published.