نیویارک: وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب امور پر جامع اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لئے آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے مشرقی محاذ سے بلااشتعال جارحیت کا فیصلہ کن جواب دیا، دشمن غرور میں لپٹا آیا اور ذلت کے ساتھ واپس لوٹا، پاکستان نے جنگ جیت لی، اب ہم امن جیتنے کے خواہاں ہیں، صدر ٹرمپ امن کے علمبردار ہیں،
انہوں نے ان خیالات کا اظہار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس کے جنرل مباحثہ میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے وژن پر مبنی ہے جس کی بنیاد امن، باہمی احترام اور تعاون ہے، ہم مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے تنازعات کے پرامن حل پر یقین رکھتے ہیں ۔
وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ برس اسی فورم پر میں نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان کسی بھی بیرونی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دے گا، یہ الفاظ اس سال مئی میں اس وقت سچ ثابت ہوئے جب مشرقی محاذ سے ہم پر بلااشتعال جارحیت کی گئی، دشمن غرور میں لپٹا آیا اور ذلت کے ساتھ واپس لوٹا۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے پہلگام واقعے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی ہماری پیشکش کو مسترد کرکے انسانی المیے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے ہمارے شہروں اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا،
جب ہماری علاقائی سالمیت اور قومی سلامتی کی خلاف ورزی ہوئی تو ہم نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا بنیادی حق استعمال کیا، ہماری بہادر مسلح افواج نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں بے مثال پیشہ ورانہ صلاحیت، بہادری اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا، ایئر چیف مارشل ظہیر بابر سدھو کی قیادت میں ہمارے شاہینوں نے فضائوں میں دشمن کے حملے کو پسپا کرتے ہوئے سات بھارتی طیاروں کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا ، جارحیت کرنے والوں کو ہمارا فیصلہ کن جواب تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا،
اس فتح کا سہرا ہمارے ہر افسر اور جوان اور شہداء کے ورثاء کے سر ہے، ان کی عظمت امر ہے، ہمارے شہداء کی مائوں کا حوصلہ ہماری رہنمائی کرتا ہے، ان کی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جائے گی، ہر پاکستانی اس صورتحال میں ایک مضبوط دیوار ’’بنیان مرصوص‘‘ بن کر کھڑا رہا۔وزیراعظم نے کہا کہ ہم طاقت میں ہونے کے باوجود جنگ بندی پر آمادہ ہوئے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جراتمند اور بصیرت افروز قیادت سے ممکن ہوئی،
ہم جنگ بندی کے لئے فعال کردار ادا کرنے پر صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو سراہتے ہیں، ان کی کوششوں نے ایک بڑے خطرناک تصادم کو ٹال دیا، اگر وہ بروقت اور فیصلہ کن مداخلت نہ کرتے تو مکمل جنگ کے نتائج تباہ کن ہوتے، صدر ٹرمپ امن کے علمبردار ہیں, اسی لیے پاکستان نے نوبل امن ایوارڈ کے لئے ان کا نام پیش کیا ہے۔ وزیراعظم نے چین، ترکیہ، سعودی عرب، قطر، آذربائیجان، ایران، متحدہ عرب امارات اور سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ سمیت پاکستان کے دوستوں اور شراکت داروں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے نازک وقت میں پاکستان کی سفارتی حمایت کی، پاکستان نے جنگ جیت لی، اب ہم پوری دنیا میں امن جیتنے کے خواہاں ہیں، پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب امور پر جامع اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے تیار ہے، جنوبی ایشیا کو ’’اشتعال انگیز‘‘ نہیں بلکہ ’’فعال‘‘ قیادت کی ضرورت ہے،
بھارت کا سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا یکطرفہ اور غیرقانونی اقدام نہ صرف اس معاہدے کی شقوں بلکہ بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے، اس معاہدے کی خلاف ورزی ہمارے لیے اعلان جنگ کے مترادف ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ وہ اس ایوان کے ذریعے کشمیری عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے اور ان شاء اللہ جلد مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کا ظلم و جبر ختم ہو جائے گا، کشمیری عوام ایک غیرجانبدارانہ ریفرنڈم کے ذریعے اقوام متحدہ کی نگرانی میں اپنا حق خودارادیت حاصل کریں گے۔
فلسطین کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ فلسطینی عوام کی حالت زار ہمارے دور کے سب سے زیادہ دل دہلا دینے والے المیوں میں سے ایک ہے، یہ طویل ناانصافی عالمی ضمیر پر دھبہ اور ہماری اجتماعی اخلاقی ناکامی ہے، آٹھ دہائیوں سے فلسطینی عوام اپنے وطن پر اسرائیل کے وحشیانہ قبضے کو حوصلے سے برداشت کر رہے ہیں، غزہ میں اسرائیلی جارحیت نے عورتوں اور بچوں پر ایسا ظلم ڈھایا ہے جو شاید کبھی دیکھنے کو نہ ملا ہو،
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے اس کے مطالبے کی بھرپور حمایت کرتا ہے کہ 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی خودمختار فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان 1988ء میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھا، ہم ان ممالک کا خیرمقدم کرتے ہیں جنہوں نے حال ہی میں فلسطین کو تسلیم کیا ہے، ہم دیگر ممالک پر بھی فلسطین کو تسلیم کرنے پر زور دیتے ہیں کیونکہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔
وزیراعظم نے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کی طرف سے عرب و اسلامی ممالک کو اقوام متحدہ میں مشاورتی اجلاس کے لئے مدعو کرنے کے بروقت اقدام پر ان کے شکرگزار ہیں، اس سے جنگ بندی کی نئی امید پیدا ہوئی، اس امن اقدام کا کریڈٹ بھی صدر ٹرمپ کو جانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا دوحہ پر حالیہ حملہ اور دیگر ممالک کی خودمختاری کی خلاف ورزیاں اس کے باغیانہ رویے کی عکاسی کرتی ہیں، پاکستان برادر ملک قطر کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے، ہم یوکرین تنازع کے پرامن حل کی بھی حمایت کرتے ہیں ,
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، پاکستان دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن ملک کے طور پر کردار ادا کر رہا ہے اور اس سلسلے میں 90 ہزار جانوں کی قربانی دے چکا ہے جن میں ہماری خواتین، بچے، بزرگ، ڈاکٹر، انجینئرز اور دوسرے شامل ہیں، دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھا چکا ہے،
آج ہمیں بیرونی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا سامنا ہے، ٹی ٹی پی، فتنہ الخوارج، فتنہ ہندوستان، بی ایل اے اور اس کے مجید بریگیڈ کی دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں ، یہ گروہ افغان سرزمین سے آپریٹ کرتے ہیں اور جعفر ایکسپریس جیسے ہولناک حملوں کے ذمہ دار ہیں جسے یرغمال بنایا گیا لیکن ہماری مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارروائی کرکے یرغمالیوں کو رہا کرایا اور دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے سکیورٹی ادارے ن دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں اور ہم اس جنگ کو آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ قریبی ہمسائے کی حیثیت سے پاکستان کا پرامن افغانستان سے براہ راست تعلق ہے،
Please follow and like us: