اسلام آباد۔سپریم کورٹ میں قائم آئینی بینچ نے قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تقرری کے خلاف دائر نظرثانی درخواست مسترد کر دی۔
آئینی بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی، اور اس میں دیگر ججز میں جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس جمال خان مندوخیل، اور دیگر شامل تھے۔ نظرثانی درخواست ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے دائر کی تھی۔
ریاض حنیف راہی نے عدالت سے درخواست کی کہ انہیں اپنے دلائل دینے کے لیے پانچ منٹ دیے جائیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ نظرثانی کی درخواست غیر مؤثر نہیں ہوئی ہے، لیکن اس پر مزید بحث کی گنجائش نہیں ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ "اب تو قاضی فائز عیسیٰ کو چھوڑ دیں، یہ روسٹرم سیاسی تقریروں کے لیے نہیں ہے”۔
جسٹس مندوخیل نے واضح کیا کہ یہ نظرثانی کا کیس ہے اور اسے دوبارہ کھولا نہیں جا سکتا۔ وکیل ریاض حنیف راہی نے اس موقع پر بھٹو کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے اس کیس پر 40 سال بعد فیصلہ دیا تھا، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے جواب دیا کہ بھٹو ریفرنس ایک مختلف کیس تھا اور اس میں حقائق بھی مختلف تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا: "وکیل صاحب، آپ بات نہیں سن رہے، اور غصہ کس بات کا کر رہے ہیں؟”
ریاض حنیف راہی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالت کو پہلے نظرثانی کے قانونی جواز دیکھنے چاہیے، کیونکہ قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تقرری کے وقت وزیر اعلیٰ سے مشاورت نہیں کی گئی تھی۔
اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ "نظرثانی میں آپ کو پہلے یہ بتانا ہوگا کہ فیصلے میں غلطی کہاں ہے اور قانون میں یہ کہاں لکھا ہے کہ وزیر اعلیٰ سے مشاورت ضروری ہے۔”
بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ "مشاورت کا عمل زبانی بھی ہو سکتا ہے، یہ کوئی مخصوص طریقہ کار نہیں ہے، آپ پیراگراف 8 پڑھیں اور پھر قانونی سوال پیش کریں۔”
آخرکار، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ "میری رائے میں یہ درخواست جھوٹی ہے، اور میں اس کیس کو پاکستان بار کونسل کو بھیجنے کی سفارش کرتا ہوں”۔