جس شہر میں بجلی کے بل جلائے جا رہے ہیں اسی شہر میں بجلی چوری بھی ہو رہی ہے، نگران وزیراعظم

اسلام آباد (یو این آئی )نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بجلی کے نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی کی پیداوار، ترسیل اور وصولی کا نظام انتہائی ناقص ہے، صورت حال پر متعلقہ مالیاتی اداروں سے بات کر رہے ہیں اور جلد نتیجہ نکلے گا، جس کا اعلان کریں گے۔ گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران کے لیے بجلی کی مد میں مفت کے بجائے مونیٹائز کرکے یوٹیلیٹی کے زمرے میں ایک مخصوص رقم کرنے یا جو سہولت ہے اس میں 50 فیصد کمی کر نے کی تجاویز زیر غور ہیں ۔ تمام اسٹیک ہولڈرز سے پالیسی پر بات کر رہے ہیں اور اگلے48 گھنٹوں میں ایک پالیسی کے ساتھ سامنے آئیں گے، ہمارا کام الیکشن کمیشن سے تعاون کرنا ہے اور علاقائی اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق جتنا ممکن ہو سکے شفاف انداز میں غیرجانب دار انتخابات کرواکر ہم رخصت ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے گذشتہ روز یہاں وزیر اعظم ہاس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ، انھوں نے کہا کہ میڈیا کے ساتھ میری پہلی باقاعدہ ملاقات ہے اور زحمت دینے کا مقصد آپ کے حوالے سے پوری قوم سے بات کرکے جو صورت حال ہے اس کی وضاحت کرنے کی کوشش ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جن چیلنجگ معاشی صورت حال میں یہ نگران حکومت آئین کے تسلسل کے لیے معرض وجود میں آئی ہے اور اپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی میں ہمیں جو بہترین شخصیات مل سکتی تھیں ان کو یکجا کیا گیا ہے تاکہ بہتر انداز میں مسائل سے نمٹا جائے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں جو گوناگوں مسائل ہیں وہ دونوں معاشی اور سیکیورٹی محاذ پر چیلنجز ہیں، معاشی حوالے سے اگر مسائل کی نشان دہی درست ہوگی تو اقدامات سود مند ہوں گے اور حال ہی میں بجلی کے بلوں کے حوالے سے احتجاج دیکھا اور اس احتجاج کے ارد گرد سول سوسائٹی، میڈیا اور مختلف مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی تشویش تھی وہ بہت شدید ردعمل آیا، جس کا ہمیں میڈیا اور سوشل میڈیا کےذریعے پتا چلا۔نگران وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے کوئی ذاتی ارادے یا منصوبے نہیں ہیں، جس کے تحت ہم گفتگو کر رہے ہیں لیکن جو دن حکومت میں گزرے ہیں اس میں ادراک کے عمل سے گزرے ہیں اور بحیثیت نگران وزیراعظم جو چیزیں میرے سامنے آرہی ہیں وہ معاشرے کے دوسرے کردار ہیں وہ بھی ان خیالات یا سرگرمیوں سے گزرتے ہیں یا ہم ایک مخصوص سیاسی، معاشی اور صحافتی کلچر کا شکار ہوگئے ہیں اور اس کلچر میں رہتے ہوئے ہماری گفتگو اسی کے حوالے سے ہے۔ان کا کہنا تھا کہ معاشی حوالے سے ہمیں دو چیزوں کا سامنا ہے جو مشکل ہیں، بجلی کے بل کے حوالے سے ایسا نہیں ہے کہ یہاں چند ظالم حکمران آئے ہیں اور وہ غریب طبقے کا خون چوسنے کے لیے تیاری میں ہیں اور وہ کر کے چھوڑیں گے، اگر کسی کا یہ خیال ہے تو برائے مہربانی یہ خوش فہمی اور غلط فہمی دونوں دور کریں۔انہوں نے کہا کہ ہم یہاں کیوں ہیں، اس سوال پر مجھے بھی سوچنا چاہیے اور پچھلی تین دہائیوں سے ہمارے ہاں جنہوں نے حکومتیں کی ہیں، ان کو بھی سوچنا چاہیے، جو اداراتی اور پروفیشنل مشورے آئے ہیں ان کو بھی سوچنا چاہیے۔نگران وزیراعظم نے کہا کہ سوچنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ٹھنڈے دماغ کے ساتھ سوچنا چاہیے کہ اس سے نکلنے کے لیے راہ کیا ہے، تجاویز کون دے گا، دنیا میں کلچر ہے کہ میڈیا بھی تجاویز دیتا ہے لیکن اس کے لیے میڈیا کو بھی متعلقہ شعبے میں ماہر ہونا پڑےگا۔انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں نوے کی دہائی میں لوڈ شیڈنگ ایک بہت چیلنجنگ مسئلے کے طور پر ابھری، اس کے حل کے لیے ہم نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کیے اور ہم نے چاہا کہ بجلی کی پیداوار بڑھائیں لیکن یہ احساس کیے بغیر کہ ہم جو معاہدے کر رہے ہیں وہ ہمارے معاشرے اور ریاست کے لیے اتنے خوف ناک اور موزوں نہیں ہیں کہ آپ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بجلی کی اسی پیدوار کے نتیجے میں دو ڈھائی دہائیوں تک کیپسٹی سرچارج کے متعلق چاہے پیدوار کی لاگت ہو ہو یا نہ ہو لیکن ہمیں دینی ہوگی۔انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ بلوں کی وصولی کا نظام 30 سے 40 برسوں میں اتنا ناقص بنایا، پیدوار، فراہمی اور وصولی تینوں نظام ناقص ہیں، پہلے معاہدے غلط کردیے پھر ہائیڈل کی پیداوار نہیں بڑھی، منگلا اور تربیلا کے بعد کوئی قبل ذکر پانی کا ذخیرہ ہم نہیں کر پائے۔انہوں نے کہا کہ بجلی کی وصولی کے حوالے سے لائن لاسز یا چوری کہتے ہیں اور درد کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اس میں پورا کارٹیل کا نظام ملوث ہے، اس میں بدقسمتی سے بعض مختلف ڈسکوز یا مختلف اداروں میں کام کرنے والے ملازمین اس سے جڑے ہوئے ہیں۔
انوارالحق نے کہا کہ ایک طرف ایک شہر میں جہاں بجلی کے بلوں پر احتجاج ہو رہا تھا اور بل جلائے جا رہے ہیں اور احتجاج ہو رہا ہے اور اسی شہر میں 200، 300 اور 500 میگا واٹ کی چوری ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ سرکلر ڈیٹ کو سبسڈائز کرکے بجلی کی ترسیل بڑھائی، یہ سوچے بغیر کہ ایک طرف آبادی بڑھ رہی ہے اور دوسری بجلی کی پیداوار درآمدی ایندھن پر انحصار کر رہی ہے، وہ بیرونی ذخائر ڈالر کی بنیاد پر درآمد تھی، اس میں تبدیلی کے اثرات حکومت کے دوسرے شعبوں پر پڑ رہے ہیں۔نگران وزیراعظم نے کہا کہ فری مارکیٹ میں مالی اداروں کے ساتھ ہمارے شرائط اور معاہدے ہیں، جن کو ہر صورت پورے کرنے ہیں، کوئی ان سے روگردانی کی سوچ رہا ہے، نہ سوچ سکتا ہے اور نہ ہی اس کی اجازت دی جاسکتی ہے، اس پر ہم بالکل واضح ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہاں مارکیٹ فورسز کے تحت اسمگلنگ کی سرگرمی، افغان ٹریڈ ٹرانزٹ کے ساتھ جڑے ہوئے مسائل کے ساتھ معاشی مسائل ہیں اور کسی شعبے میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ہے، غیرپیداواری سرمایہ کاری کے منافعے پر بیٹھے ہوئے ہیں، جس پر مزدور اور کیپٹل کا سروکار نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر جگہ کہا جاتا ہے کہ سبسڈائز کیا جائے تو اس کا مطلب بنیادی طور پر یہ ہے کہ آپ نے جو ٹیکس کل لینا ہے اس کی طرف شفٹ کرتے ہیں، آپ مسئلے کو حل نہیں کر رہے ہیں اور ٹال دیتے ہیں، اگر ہم نے بھی مسئلے کو ٹالنا ہے تو بھی ایک طریقہ کار ہے اس پر سوچا جانا چاہیے اور سوچا جاسکتا ہے، دو مہینے، ڈھائی مہینے، تین مہینے یا سوا تین ہیں وہ تو لگ پتا جائے گا لیکن بالآخر ٹالا ہوا مسئلہ پھر ہمارے سامنے آئے گا زیادہ سے زیادہ اس کرسی میں کوئی اور آئے گا لیکن اس سوال کا جواب ڈھونڈنا پڑےگا۔ان کا کہنا تھا کہ اس صورت حال کی وجہ سے دوسرے مسائل آرہے ہیں، ایک ایسا بیانیہ،نگران وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا کام الیکشن کمیشن سے تعاون کرنا ہے اور علاقائی اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق جتنا ممکن ہو سکے شفاف انداز میں غیرجانب دار انتخابات کرواکر ہم رخصت ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دوران ہمیں لوگوں کی مدد بھی کرنی ہے اور تسلی بھی دینی ہے۔بجلی کے بل سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ ضرور ہے اس کو ٹھیک کیا جا رہا ہے، دو ماہ کا بل بڑھا ہے، اس کی نگرانی اور کیلکولیشن کی ہے اور حل کرنے کے لیے سب سے زیادہ اجلاس کیے ہیں، پورے توانائی شعبے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں ہم نے سخت بات بھی کی اور حل بھی دے رہے ہیں اور بتایا کہ بڑی پریزینٹیشن میں وقت ضائع نہ کریں بلکہ مؤثر اقدامات کریں۔انہوں نے کہا کہ ہم ابھی تک متعلہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ مذاکرات میں ہیں اور بہت جلد ہم کسی نہ کسی ایسی پوزیشن میں ہوں گے جہاں پر ہم کسی خلاف ورزی کے بغیر مختلف آپشنز پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں اور ان آپشنز کا نتیجہ جلد آئے گا اور ہم اس کا اعلان کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کسی بھی کوئی بھی فیصلہ نہیں دیتی ہے تو جو قانون بنا ہے وہ قابل عمل قانون ہے اور اس وقت الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دینے کا ادارہ ہے اگر سپریم کورٹ اس کے علاوہ کوئی فیصلہ کرے تو پھر دوسری صورت ہوگی۔انہوں نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت اس کو اچھا سمجھے یا نہیں اس وقت قانون یہی ہے، ہم کوئی پوزیشن نہیں لے رہے ہیں لیکن جو قانون ہے اس کی بات کر رہے ہیں، ابھی یہی بات ہے الیکشن کمیشن ہمیں جو کہے گا ہم وہی کریں گے۔سرکاری عہدیداروں کو مفت بجلی کی فراہمی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فوج سے پوچھا کہ کتنی بجلی مفت ملتی ہے تو جواب ملا کہ ایک یونٹ بھی مفت بجلی نہیں ملتی اور وہ خرچ ہونے والی بجلی کا بل ادا کرتے ہیں اور وہ ان کو دیے گئے بجٹ سے ادا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے حوالے سے سوشل میڈیا میں جس طرح کی باتیں آ رہی ہیں وہ بھی ایسا نہیں ہے، ہاں واپڈا کے ملازمین کے حوالے سے بات درست ہے، ایک گریڈ سے 16 گریڈ کے عہدیداروں کو مختلف بریکٹ میں رکھا گیا ہے اور 17 سے اوپر گریڈ کو زیادہ ریلیف دیا گیا ہے اور بعض افسران کو بے تحاشا بجلی کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔نگران وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بلایا ہے اور پالیسی پر بات کر رہے ہیں اور48 گھنٹوں میں ایک پالیسی کے ساتھ سامنے آئیں گے، جس میں دونوں طرف کی دلیل شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک دلیل یہ آرہی ہے واپڈا کے ملازمین بجلی کی پیداوار میں حصہ ڈال رہے ہیں تو ان کو رعایت دی جائے، ہمارا نکتہ نظر ہے کہ ایک سے 16 گریڈ کے افسران انہی لوگوں میں شامل ہیں جو آج احتجاج کر رہے ہیں، اگر ہم نے اسی سیکشن کو ہدف بنانا ہے تو اس سیکشن کو مطمئن کرنے کی کوئی منطق نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک سے 16 تک ان کی سیلنگ کا بھی پتا ہے، ہم ان کو چھیڑنے کا نہیں سوچ رہے ہیں، جو 17 سے 22 گریڈ تک ہیں ان کے لیے مفت کے بجائے مونیٹائز کرکے یوٹیلیٹی کے زمرے میں ایک مخصوص رقم دی جائے اور دوسری تجویز ہے کہ جو سہولت ہے اس میں 50 فیصد کمی کردی جائے۔انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ہم مؤثر پالیسی بنا رہے ہیں اور پالیسی سامنے لائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں