متحدہ اپوزیشن اور ایم کیو ایم میں معاہدہ طے پا گیا .

اسلام آباد ( یو این آئی نیوز)
وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو رخصت کرنے کے حوالے سے متحدہ اپوزیشن کی کوششیں اپنے آخری مراحل میں داخل ہو گئیں ، اس حوالے سے منگل اور بدھ یعنی 29اور30مارچ کی درمیانی رات حزب اختلاف کی قیادت نے حکومت پر ایک اور کاری ضرب لگاتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کو بھی حکومت سے علیحدہ کرتے ہوئے اپنے ساتھ ملانے کی جدوجہد میں کامیابی حاصل کر لی ،

اس سے قبل ایک حکومتی ٹیم نے بھی متحدہ سے ملاقات کی لیکن جس انداز میں وہ ٹیم وہاں سے رخصت ہوئی وہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اس ٹیم کو دوسری جانب سے جواب مل چکا ہے ، جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا ایک بڑا وفد پارلیمنٹ لاجز پہنچا جہاں اس نے خالد مقبول صدیقی کے لاج میں کئی گھنٹوں تک ایم کیو ایم کی قیادت سے مذاکرات کیے اور بلا خر دونوں کے درمیان رات دو بجے ایک معاہدے پر دستخط ہو گئے ، رات کے اندھیرے میں طے پانے والے طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات کیا ہیں ان کا انکشاف آج یعنی بدھ 30مارچ کی سہ پہر چار بجے ایک پریس کانفرنس میں کیا جائے گا ،

قبل ازیں یہ پریس کانفرنس رات ہی ہو نا طے پائے تھی اور اپوزیشن کی پوری قیادت معاہدہ طے پانے کی خبر ملتے ہیں پارلیمنٹ لاجز پہنچ چکی تھی جس میں آصف علی زرداری ، بلاول زرداری ، میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن شامل تھے ، ان کا خیال تھا کہ فوری طور پر اس کامیابی کا جشن منایا جائے اور فوری پریس کانفرنس کر کے ایم کیو ایم کو پابند کر لیا جائے لیکن شاید ایم کیو ایم کے اصرار پر اس پریس کانفرنس کو ملتوی کر دیا گیا ،

اب تک کی صورتحال کے مطابق اگر ایم کیو ایم بھی اپوزیشن کے کیمپ میں چلی جاتی ہے تو اسے قومی اسمبلی کے ایوان میں 177ارکان کی حمایت حاصل ہو جائے گی اور وہ پی ٹی آئی کے منحرف ارکا ن کی سپورٹ کے بغیر ہی وزیر اعظم عمران خان کو گھر بھیج پائے گی ، اور اگر تمام منحرف ارکان بھی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیتے ہیں جس کا دعوی پی ٹی آئی کے منحرف اقلیتی ایم این اے رمیش کمار نے کیا ہے تو یہ تعداد 189 جائے گی اس تازہ ڈیویلیپمنٹ کے نتیجے میں بظاہر یہ بات یقینی دکھائی دے رہی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو ایوان میں اکثریت حاصل نہیں رہی اور اس کا خاتمہ یقینی دکھائی دے رہا ہے ،

لیکن اس سے پہلے اس بات پر بھی نظر رکھنی ہو گی کہ کیا اپوزیشن سے بھی کچھ لوگ باغی ہو سکتے ہیں یا نہیں ، اس کا ہمیں ووٹنگ کے دن تک انتظار کرنا ہو گا، موجودہ حکومت کے دور میں اگر پارلیمنٹ کے اندر مختلف مواقعوں پر ہونے والی ووٹنگ پر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح دکھائی دیتا ہے کہ سوائے یوسف رضا گیلانی کے سینٹر بننے کے علاوہ ہر موقعہ پر حزب اختلاف کے اراکین نے ہی اپنی قیادت کو زچ کیا حتی کہ پہلے یو سف رضاگیلانی کو سینٹر بنوایا اور پھر دو سے تین دن بعد ہی سینٹ میں اکثریت کے باوجود انھیں چیرمین سینٹ کا الیکشن ہروا دیا ، ایسی اپوزیشن کے ہوتے ہوئے آخری وقت تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد میں کامیابی یقینی ہے ،

اپنا تبصرہ بھیجیں