میرے قلم سے ۔۔۔۔ تحریر ۔۔۔۔ ابن سرور ،

لانگ مارچ تو ہو گا سو ہو گا ،،،،،،،،،،،،،،،۔
یہ بات تو اب ثابت ہو چکی ہے کہ شہباز شریف حکومت نالائقوں کا ایک ٹولہ ہے ، جس میں مفتاح اسماعیل سب پر سبقت لیے ہوئے ہیں کیونکہ موجودہ دور میں ہونے والی مہنگائی کے اصل ذمہ دار وہی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے حوالے سے خود ن لیگی کیمپوں میں تحفظات پائے جا رہے ہیں اور ان کی تبدیلی کی باتیں کی جا رہی ہیں ان دنوں ن لیگ کے مستند اور آزمائے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی وطن واپسی کی خبریں بہت گرم ہیں ، کہا جا رہا ہے کہ ان کو پاسپورٹ بھی جاری ہو گیا ہے اوروہ کسی بھی وقت پاکستانی حدود میں لینڈ کر سکتے ہیں۔ خبر ہے کہ ان کی واپسی کا فیصلہ حکومت کو مہنگائی کے بوجھ سے نکالنے اور اس کی معاشی پالیسیوں میں بہتری لانے کے لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ ماضی میں انھوں نے اپنے آپ کو مفتاح اسماعیل سے زیادہ کامیاب اور بہترتجربہ رکھنے والا وزیرخزانہ ثابت کیا ، مفتاح کے بارے میںن لیگی حلقوں میں یہ بات تقویت پکڑ چکی ہے کہ انھوں نے صرف آئی ایم ایف کی شرائط کو ماننے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کیا یہ مفتاح ہی تھے جنھوں نے وزیر اعظم کو بھی ان شرائط کو ماننے پر مجبور کیا اور ان کو نہ ماننے کی صورت میں انھیں بھیانک نتائج کی خبریں سنائیں اور انھیں مجبور کیا کہ اگر انھوں نے حکومت کرنی ہے تو ان شرائط کے سامنے سرتسلیم خم کردیں، مرتے کیا نہ کرتے وزیر اعظم بھی مفتاح اسماعیل کی جانب سے دکھائی جانے والی بھیانک تصویر سے اتنا خوفزدہ ہوئے کہ وہ بھی آئی ایم ایف کی شرائط کے آگے بلکل ہی لیٹ گئے اور انھیں یہ احساس ہی نہ رہا کہ اس ملک کے عوام کا کیا بنے گا ، ان شرائط کے نتیجے کے ہونے والی مہنگائی کا بوجھ وہ کیسے برداشت کریں گے ، قوم اب یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ شرائط کا بوجھ تو سابق حکومت پر بھی تھا پھر اس نے کیسے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 10 روپے فی لیٹر کمی کر کے انھیں جون تک کے لیے منجمد کر دیا اور بجلی کی قیمت میں بھی پانچ روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا، اس وقت آئی ایم ایف کی شرائط کا بھی کوئی شور شرابہ نہ تھا ، یہ شو ر اتحادی حکومت کے آتے ہی کیسے شروع ہو گیا اور ہ اس ے آتے ہی عوام پر مہنگائی کے ایک ایسے نہ رکنے والے سلسلے کا آغاز ہوا کہ رکنے میں ہی نہیں آ رہا ، رکے تو تب نہ جب حکومت نے اسے روکنےکی کوشش کرنی ہو، حکومت کی کوشش تویہی دکھائی دے رہی کہ جیسے وہ صرف اور صرف آئی ایم ایف کا ایجنڈا پورا کرنے آئی ہو ، یا اسکو باہر سے کسی نے صرف پاکستانی عوام کو رگڑا دینے کے ایجنڈے کے تحت اس ملک پر مسلط کیا ہو ،بہر حال وقت صورتحا ل یہ ہے کہ وہ گالیاں جو عمران خان کو مہنگائی کی وجہ سے پڑ رہی تھیں ( کیونکہ مہنگائی تو اس وقت بھی بہت تھی ) وہ اب اتحادی حکومت کو پڑ رہی ہیں اور ان گالیوں کا زیادہ شکار ن لیگ ہے، جبکہ دیگر دو بڑے اتحادی پیپلزپارٹی اور جے یو آئی مزےلیتے دکھائی دے رہے ہیں اور چھوٹے اتحاد جن کی وقت صڑف ٹشو پیپر کی ہوتی ہے وہ احتجاج کرتے اور پچتاتے دکھائی دے رہے ہیں ، ایسی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی کہ مستقبل قریب میں یہ مہنگائی کم ہو گی اس لیے اس کا بوجھ اب اس حکومت خصوصا مسلم لیگ ن کو آئندہ الیکشن میں اٹھانا پڑے گا ، اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ عوام میں ن لیگ کی حالت پتلی دکھائی دے رہی ہے ، پنجاب میں 17 جولائی کو پنجاب اسمبلی کی 20 سیٹیوں پرجو نااہل قرار دیے گئے پی ٹی آئی کے اراکین صوبائی اسمبلی کی بنا پر خالی ہوئیں پر ہونے والے ضمنی الیکشن کے حوالے سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ ن لیگ کےلیے زیادہ اچھی نہیں ہیں ، اور کہا یہ جا رہا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے عوام میں تحریک انصاف کا گراف بہت بہتر ہوا ہے جبکہ ن لیگ کا گراف نیچے چلا گیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ حکومت اس ضمنی الیکشن میں پر ی پول دھاندلی کے حوالے سے ہر حربہ استعمال کرنے کی پلاننگ کر رہی ہے جبکہ الیکشن کے دن بھی اس نے ریاستی طاقت کے استعمال کا منصوبہ بھی بنا رکھا ہے ،

دوری جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 2 جولائی کو اس حکومت کے خلاف احتجاج کی ایک اور کال دے دی ہے یعنی وہ 2 جولائی کو اسلام آباد میں ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کریں گے جبکہ انھوں نے اپنی پارٹی کے عہدیداران کو بھی اپنے اپنے احتجاج کی ہدایت کی ہے یعنی ان کا کہنا ہے کہ 2 جولائی کو پورے ملک میں لوگ گھروں سے باہر نکل کر حکومت کی ظالمانہ اور ناقص اقتصادی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کریں اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں لگائے گئے ہوش ربا ٹیکسوں کے خلاف جو ملک میں مہنگائی کی بدترین لہر کا باعث ہوں گے کی بھرپور انداز سے مذمت کریں،

واضح رہے کہ عمران خان کی جانب سے ہر ہفتے دی جانے والی احتجاجی مظاہرے کی کال احتجاجی تحریک کے حوالے سے ان کی نئی حکمت عملی کا مظہر ہے ، ذرائع کے مطابق چیرمین تحریک انصاف کی یہ شدید خواہش تھی کہ وہ 25 مئی کے بعد فوری طور پر ایک او ر لانگ مارچ کی کال دیں ، لیکن پارٹی قیادت کی سرد مہری اور لانگ مارچ میں عدم دلچسپی کے رویے کے باعث ان کی یہ خواہش دھری کی دھری رہ گئی اور وہ آج تک اس حوالے سے اب تک کسی تاریخ کا اعلان نہیں کر سکے، اپنے ہر احتجاج میں وہ اپنے کارکنوں کو لانگ مارچ کی کال کے لیے تیار رہنے کی ہدایت تو کرتے ہیں لیکن وہ اس سے متعلق کوئی حتمی پلان نہیں دے پاتے ، اسے لوگ تحریک انصاف کی قیادت کی بزدلی سے تعبیر کر رہے ہیں کہ جیسے اس نے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہوں اور 25 مئی کے لانگ مارچ کے موقع پر ان کی جانب سے اپنائے گئے ظالمانہ اور جابرانہ رویے نے اس کے حوصلے اس قدر پست کردیے ہوں کہ وہ اب ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت نہ رکھتی ہو ، جو بھی ہو اس صورتحال نے رانا ثنا اللہ کو یہ موقعہ ضرور فراہم کیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو تڑیاں لگا سکیں اور ڈرا سکیں، لہذا عمران خان کو اپنی احتجاجی تحریک میں جان برقرار رکھنے کے لیے احتجاج کا یہ طریقہ اختیار کرنا پڑا کہ وہ ہفتے دو ہفتے میں کوئی ایسی سرگرمی کریں جس سے ان کی تحریک زندہ رہے ، تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی بزدلی کے باعث یہی راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں کہ وہ اپنے کارکنوں سے کہیں کہ وہ کہیں دور آنے جانے کی بجائے اپنے اپنے شہروں میں نکل کر ان کی کال پر احتجاج کر لیا کریں ، لانگ مارچ تو جب ہو گا سو ہوگا ،

اپنا تبصرہ بھیجیں