روزانہ کیس چلے تو شہباز شریف اگلے چھ مہینوں میں کم از کم 25سال کے لیے جیل جا سکتے ۔۔ فواد چوہدری

۔اسلام آباد…وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ روزانہ کیس چلا تو مسلم لیگ(ن) کے رہنما شہباز شریف اگلے چھ مہینوں میں کم از کم 25سال کے لیے جیل جا سکتے ہیں،شریف خاندان سے متعلق عدالتی فیصلے کو پاکستان میں غلط رپورٹ کیا گیا، پاکستان کے عوام شریف خاندان سے لوٹی ہوئی دولت کی ریکوری چاہتے ہیں،ہم انتخابی اصلاحات کے لیے اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن یہ بات چیت وقت ضائع کرنے کے لیے نہیں بلکہ معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے ہونی چاہیے اور اس کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔ ہم پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کریں گے اور جوائنٹ سیشن میں اپنا ایجنڈا لے جانے کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے بھی تیار ہیں،۔ وہ وفاقی کابینہ کا اجلاس کے بعد یہاں میڈیا کو بریفنگ دے رہے تھے ۔ وفاقی کابینہ کا اجلاس گذشتہ روز یہاں وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں پندرہ سے زائد ایجنڈا نکات پر غور کیاگیا ۔ وزیر اطلاعات نے بتایا کہ ایجنڈے کے مطابق اجلاس کے آغاز میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف کرانے اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا اختیار دینے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی ۔ کابینہ کو آگاہ کیا گیا کہ اس ضمن میں تمام شراکت داروں بشمول اپوزیشن سے مشاورت کی جا رہی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ساتھ ساتھ بیرون ملک پاکستانیوں کو حق رائے دینے کو یقینی بنانا موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین انتخابی عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔کابینہ کو آگاہ کیا گیاکہ 2013 میں تعمیر کیے گئے موٹر ویز پر لاگت موجودہ دور کی لاگت سے بھی کئی گنا زیادہ پائی گئی۔ہوا بازی ڈویژن نے کابینہ کو شہری علاقوں میں کثیر المنزلہ عمارتوں سے متعلقہ سول ایویشن قوانین کے حوالے سے بریفنگ دی۔ کابینہ نے اس ضمن میں ہدایت دی کی کہ بلند عمارتوں کے لیے قواعد و ضوابط کو حتمی شکل دی جائے جس کے لیے 4 رکنی وزارتی کمیٹی بین الاقوامی ماڈلز کا جائزہ لے گی اور کابینہ کو رپورٹ پیش کرے گی۔ٹیلی فون انڈسٹری آف پاکستان کو فعال بنانے اورجدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی خاطر کابینہ نے ٹیلی فون انڈسٹری آف پاکستان کو نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن کے زیر انتظام لانے کی منظوری دی۔کابینہ نے کاروبار اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے مجوزہ قومی ایکشن پلان کی اصولی منظوری دی۔ یہ ایکشن پلان دوسال پر محیط تمام شراکت داروں کے ساتھ مشاورت کے بعد ترتیب دیا گیا ہے۔ ایکشن پلان 69 اہداف پر مشتمل ہے جن کی ترجیہات درج ذیل ہیں:۔- Financial Transparency & Human Rights in Public Procurement Contract- Anti-Discrimination, Equal opportunity and Inclusion- Human Rights due diligence- Labor Standards & Informal Economy- Child Labor- Forced or Bonded Labor- Occupational Health & Safety- Access to Remedy ۔کابینہ نے191 ممالک کے لیے پاکستان آن لائن ویزا سسٹم پر پاکستانی ویزا حاصل کرنے کی منظوری دی۔ پہلے یہ سہولت صرف 50ممالک کو میسر تھی۔ اس اقدام سے پاکستان میں سرمایہ کاری اور سیاحت کو فروغ ملے گا۔کابینہ نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے بورڈ ممبر محمود باقی مولوی کا استعفیٰ منظور کیا اور ان کی جگہ سعود عظیم ہاشمی کو بورڈ ممبر تعینات کرنے کی منظوری دی۔سپریم کورٹ کی ہدایات اور ڈرگ پرائیسنگ کمیٹی کی سفارشات کے مطابق کابینہ نے 34 ادویات کی قیمتیں متعین کرنے کی منظوری دی۔کابینہ نے کرونا وباء کے پیش نظر انڈونیشیا کو امداد فراہم کرنے کی منظوری دی۔ اس امداد میں 20 وینٹیلیٹر، 50,000فیس ماسک، 10,000 سرجیکل گاون، 15,000 پروٹیکشن سوٹ، 10,000 اسپیشل دستانے اور 20,000 سرجیکل کیپس شامل ہیں۔پاور انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی کے بورڈ آف ڈائیریکٹرز کی تنظیم نو کرنے کی منظوری دی گئی۔کابینہ نے رویت ہلال کے حوالے سے قوانین کی اصولی منظوری دی۔ اہم نکات میں وفاقی، صوبائی اور ضلع کی سطح پر کمیٹیوں کا قیام، ان کمیٹیوں میں محکمہ موسمیات، سپارکو، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور وزارت مذہبی امور کی نمائیندگی اور رویت کی غیر مصدقہ اطلاع دینے پر جرمانے شامل ہیں۔ رویت کا اعلان صرف وفاقی رویت ہلال کمیٹی ہی کر سکے گی۔کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 23ستمبر 2021کے اجلاس میں لئے گئے فیصلوں ،کمیٹی برائے ادارہ جاتی اصلاحات کے 9ستمبر 2021کے اجلاس میں لئے گئے فیصلوں، کمیٹی برائے توانائی کے 13 اور 17ستمبر 2021کے اجلاس میں لئے گئے فیصلوں اورکابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کے23ستمبر 2021کے اجلاس میں لیے گئے فیصلوں کی بھی توثیق کی گئی۔کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد حسین چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں آج تک کسی بھی حکومت نے انتخابی اصلاحات پر زور نہیں دیا، یہ صرف عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت ہے جو اس معاملے کو آگے لے کر چلنا چاہتی ہے اور ہم اس حوالے سے مہم بھی چلائی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں پارلیمان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان گفتگو خوش آئند ہے اور ہم سمجھتے ہیں اس کو آگے بڑھنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا پاکستان کی معیشت چلانے میں سمندر پار پاکستانیوں کا بڑا ہاتھ ہے اور انہی کی بدولت ہم آج کے حالات کا بھی مقابلہ کررہے ہیں، اگر ہم ان کو اپنے سیاسی نظام سے نکال دیں تو یہ بہت زیادتی کی بات ہو گی لہٰذا وزیر اعظم نے حکومتی وزرا اور نمائندوں کو ہدایت کی ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کے حق اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معاملوں پر اپوزیشن کے ساتھ بنیادی امور کے طور پر بات کریں۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا انتخابی اصلاحات کا لازمی حصہ ہو گا اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین بھی اہم ہے کیونکہ انتخابات میں 70فیصد معاملات پولنگ کے وقت کے خاتمے اور نتائج سامنے آنے کے دوران ہوتے ہیں اور اسی پر تنازع ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک کمپنی سے 20 مشینیں منگوائی ہیں اور امید ہے کہ بڑے الیکشنز کو ہم الیکٹران ووٹنگ مشین پر شفٹ کر پائیں گے اور آپ دیکھ سکیں گے کہ الیکٹرانک ووٹنگ کا طریقہ کار کیسا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم انتخابی اصلاحات کے لیے اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن یہ بات چیت وقت ضائع کرنے کے لیے نہیں بلکہ معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے ہونی چاہیے اور اس کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔فواد چوہدری نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کریں گے اور جوائنٹ سیشن میں اپنا ایجنڈا لے جانے کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے بھی تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلند عمارتوں کا معاملہ بہت پرانا ہے اور کابینہ نے یہ کہا کہ جن شہروں میں ایئرپورٹس ہیں ان کے نزدیک این او سی کی شرط ختم کی جائے اور لوگوں کو راغب کیا جائے کہ وہ بڑے گھر بنانے کے بجائے بڑی عمارتیں بنائیں تاکہ شہر بے ہنگم طریقے سے نہ پھیلیں اور ہم بلند عمارتوں کے شہر بنا سکیں۔انہوں نے کہاکہ ہماری تمام کوششوں کے باوجود ابھی تک اس معاملے پر عملدرآمد نہیں ہوا اور بلند عمارتیں اتنی نہیں بن رہیں جتنی بننی چاہئیں اور ایک کابینہ کی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے تاکہ وہ پتہ لگا سکے کہ ایسا کیوں نہیں ہو پا رہا۔ اس کمیٹی میں وفاقی وزیر اسد عمر اور ڈاکٹر فیصل کو بھی اس کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے ، وہ بتائیں گے کہ کیا قانونی اور انتظامی مسائل و مشکلات ہیں تاکہ ان کو دور کیا جا سکے ، انھوں نے کہا کہ ہم اونچی عمارتوں کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں ،وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات نے کہا کہ ایک ہزار ارب روپے کے اسکینڈل پر بھی گفتگو ہوئی کیونکہ 2013 کے ٹھیکوں کا ریٹ 2021 کے ٹھیکوں کے ریٹ سے ڈبل ہے اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی اب جو سڑکیں بنا رہی ہے، وہ 2013 کے مقابلے میں دس ،دس کروڑ روپے سستی بن رہی ہے حالانکہ سڑک کے تمام مٹیریل کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے، اس معاملے پر وزیر مواصلات نے بریفنگ دی اور اس کے لیے ایک لائحہ عمل طے کیا جا رہا ہے کہ جو لوگ اس کرپشن میں شامل ہیں ان کے خلاف ہم کس طریقے سے کاروائی کر سکتے ہیں ،اس حوالے سے ایک میں ایک کاروائی پلان کی گئی ہے ،انہوں نے کہا کہ کابینہ نے ٹیلیفون انڈسٹری آف پاکستان اس کی این آر ٹی سی کو ٹراسنفر کی منظوری دی ہے، ٹیلیفون انڈسٹری آف پاکستان کی ہری پور میں اربوں روپے کی جائیداد فارغ پڑی ہوئی تھی، اس کو ہم نے این آر ٹی سی کو ٹرانسفر کردیا ہے اور اب یہاں فیوچر ٹیکنالوجیز کو نیٹ ورک بنے گا، اس کے ملازمین کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے اور اس کے 158ملازمین کو این آر ٹی سی ملازمت دے گی ۔ان کا کہنا تھا کہ انڈونیشیا کی وبا کے دنوں میں جذبہ خیر سگالی کے طور پر انسانی بنیادوں پر مدد کی گئی ہے کیونکہ انڈونیشیا ہمارا دوست ملک ہے اور ہر مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ رویت ہلال کمیٹی کے حوالے سے نئی قانون سازی کی گئی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی نے نجی سطح پر چاند کے اعلان پر پابندی عائد کردی ہے اور سرکار یا رویت ہلال کمیٹی کی طرف سے اعلان کو ہی حتمی تصور کیا جائے گا۔انہوں نے کابینہ اجلاس میں پیش کیے گئے معاشی اشاریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ غیرملکی ترسیلات زر میں 5.4ارب تک کا اضافہ دیکھا گیا ہے ، اسی طرح پہلے دو ماہ میں 858ارب کا ریونیو اکٹھا کرنے میں اضافہ ہوا ہے اور اس میں 45.3فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر 36فیصد اضافے کے بعد 27.2ارب روپے پر پہنچ گئے ہیں، برآمدات میں 35فیصد کے ساتھ 4.6ارب کا اضافہ ہوا ہے۔شہباز شریف کے حوالے سے برطانوی عدالت کے فیصلے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے شہزاد اکبر تفصیلی پریس کانفرنس کرچکے ہیں، یہ غلط رپورٹنگ کا نتیجہ ہے، اور مس رپورٹنگ ایک بڑا پرابلم ہے ،اس عدالتی فیصلے کو جس طرح پیش کیا گیا اس پر اے آر یو نے آف کام سے بھی رجوع کیا ہے ،اور وہ اس کے اوپر کیس بھی فائل کر رہا ہے ، شہباز شریف کی جہاں تک بریت کا تعلق ہے تو اگر میرٹ کی بنیاد پر روزانہ کیس چلا تو شہباز شریف اگلے چھ مہینوں میں کم از کم 25سال کے لیے جیل جا سکتے ہیں۔ جو قانون کہتا ہے ، ہمیں امید ہے کہ روزانہ بنیاد پر یہ کیس چلے گا ،تاکہ یہ جو جھنجھنے ہیں کہ کبھی ایک خبر لگا کر خوشی کے شادیانے بجانا کبھی دوسری خبر لگا کر لڈو بانٹنا یہ سلسلہ ختم ہو ،انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لوگ شریف خاندان سے پاکستان کے پیسوں کی ریکوری چاہتے ہیں۔۔۔اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے

اپنا تبصرہ بھیجیں