اسلام آباد( یو این آئی نیوز)وزیراعظم عمران خان نے بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور مہنگائی کی لہر کے باوجود ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمت 10 روپے فی لٹر اور بجلی کی قیمت میں 5 روپے فی یونٹ کم کرنے کا اعلان کردیا، مستحق خاندانوں کیلئے مالی معاونت 12 ہزار روپے سے بڑھا کر 14ہزار روپے ، گھروں کی تعمیر، کسانوں اور کاروبار کیلئے 407 ارب روپے کے قرضے فراہم کرنے، انٹرن شپ کرنے والے نوجوانوں کو 30 ہزار روپے وظیفے کی فراہمی، اوورسیز پاکستانیوں کو سرمایہ کاری یا جوائنٹ وینچر کی صورت میں ٹیکس میں پانچ سال کی چھوٹ اور آئی ٹی سٹارٹ اپ پر 100 فیصد کیپٹل گین ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ بجٹ تک بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا، مکانات کی تعمیر کیلئے 1400 ارب روپے کے قرضے فراہم کئے جا رہے ہیں، ملک اور معیشت اب صحیح راستے پر چل پڑے ہیں، مافیاز آزادی صحافت کے نام پر بلیک میل کر رہے ہیں، سوشل میڈیا پر لوگوں پر فیک نیوز چلائی جا رہی ہیں، یہ کہاں کی صحافت ہے، وزیراعظم آزاد کشمیر کے حوالہ سے تین بڑے اخباروں میں جو غیر اخلاقی مواد چھپا اگر برطانیہ میں کوئی ایسا کرتا تو اتنا بڑا ہرجانہ ہوتا کہ اخبار ہی بند ہو جاتے، فیک نیوز کے خاتمہ کے قانون سے اچھے اور پیشہ وارانہ صحافی خوش ہوں گے، حکومت کو میڈیا کی تنقید سے کوئی مسئلہ نہیں۔
پیر کی شام قوم سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں آج اہم معاملات پر اپنی قوم سے مخاطب ہو رہا ہوں، دنیا میں صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے جس کے پاکستان پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میں نے حال ہی میں چین اور روس کا دورہ کیا ہے، میرے والدین غلام ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے ہمیشہ مجھے یہ احساس دلایا کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے، میری ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ہماری خارجہ پالیسی آزاد ہو، آزاد خارجہ پالیسی وہ ہوتی ہے جو اپنے ملک اور عوام کے مفاد میں بنائی جاتی ہے، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں حصہ لیا، میں نے ہمیشہ کہا کہ اس جنگ سے ہمارا کوئی تعلق اور لینا دینا نہیں تھا، ہمیں اس جنگ میں شرکت نہیں کرنی چاہئے تھی، پہلے ہم نے سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں شرکت کی اور نائن الیون کے بعد ہم امریکہ کے اتحادی ہو گئے،
افغانستان میں روس کے غیر ملکی قبضہ کے خلاف جدوجہد جہاد تھی لیکن نائن الیون کے بعد جنگ دہشت گردی کہلائی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فارن پالیسی پاکستان کے مفاد میں نہیں تھی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے 80 ہزار جانوں کی قربانی دی، 35 لاکھ لوگوں کو اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرنی پڑی، ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے لئے یہ شرمناک تھا کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ملک جو کسی کیلئے جنگ لڑ رہا تھا وہ اسی کے حملوں کا نشانہ بھی تھا، ہمارے اوپر ڈرون حملے کئے گئے جو شرمناک ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ فوجی آمروں کو استعمال کرنا آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا ان کو تسلیم کرے لیکن فوجی آمر مشرف کے دور میں صرف 10 ڈرون حملے جبکہ زرداری اور نواز شریف کے جمہوری دور میں 400 ڈرون حملے ہوئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آزاد خارجہ پالیسی ہوتی تو ہمارے جمہوری حکمرانوں کو امریکہ کو کہنا چاہئے تھا کہ ڈرون حملوں میں بے قصور لوگ مر رہے ہیں لیکن زرداری اور نواز شریف دونوں نے ڈرون حملوں کے خلاف ایک بھی بیان نہیں دیا بلکہ آصف زرداری کے حوالہ سے برطانوی صحافی نے لکھا کہ زرداری نے کہا کہ انہیں بے قصور لوگوں کے مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
وزیراعظم نے کہا کہ حکمران ایسا تب کہہ سکتے ہیں جب ان کے پیسے، جائیدادیں اور اربوں ڈالر کے اثاثے اور آف شور اکائونٹس ملک سے باہر ہوں، تب انہیں اپنا پیسہ بچانے کی فکر ہوتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ قوم آئندہ ووٹ ڈالنے سے پہلے فیصلہ کر لے کہ اگر آزاد خارجہ پالیسی چاہئے تو ایسی پارٹی اور رہنمائوں کو ووٹ نہ دیں جن کا پیسہ اور اثاثے ملک سے باہر ہیں۔ وزیراعظم نے چین اور روس کے حالیہ دوروں کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان دوروں سے ہمارے ملک کو عزت ملی، وقت ثابت کرے گا کہ ہم پاکستان کیلئے زبردست فائدے لے کر آئے ہیں، ہم نے روس سے 20 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنی ہے، روس کے پاس دنیا کی 30 فیصد گیس ہے، ان سے ہم نے گیس کی درآمد کیلئے معاہدے کئے ہیں، چین سے سی پیک کے دوسرے مرحلہ کے تحت ہم نے جو معاہدے کئے ہیں وہ بھی جلد قوم کے سامنے آ جائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ ایک اور اہم ایشو پر بات کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ایک ایشو بنا ہوا ہے کہ حکومت آزادی صحافت پر پابندیاں لگا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیکا لاء 2016ء میں بنا تھا، ہم اس میں محض ترمیم کر رہے ہیں، جس سربراہ نے کرپشن نہیں کی اور وہ قانون نہیں توڑتا اسے آزادی صحافت سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا، میڈیا میں 70 فیصد خبریں ہمارے خلاف ہوتی ہیں لیکن ہمیں اس سے فرق نہیں پڑتا، یہ قانون ہم حکومت کے خلاف تنقید کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے لائے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ایسا غیر اخلاقی مواد آ رہا ہے جو ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار کے خلاف ہے، چائلڈ پورنوگرافی ہو رہی ہے، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا، ایف آئی اے کے پاس 94 ہزار کیسز زیر التواء ہیں، لوگوں کے گھر اجڑ رہے ہیں، ابھی تک صرف 38 کیسوں کا فیصلہ ہوا ہے، وزیراعظم تک کو نہیں بخشا گیا، ایک صحافی نے میری اہلیہ کے حوالہ سے الزام لگایا اور بنی گالہ میں میرے گھر کے حوالہ سے بھی مجھ پر الزام لگائے گئے، میں نے اس کے خلاف مقدمہ کیا لیکن تین سال ہو گئے وزیراعظم کو بھی انصاف نہیں ملا، اب وہی صحافی پھر خبریں دے رہا ہے، اگر وزیراعظم کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے اور ایسی خواتین کے ساتھ جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تو عام لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہو گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف دور میں جب اسی صحافی نے تنقید کی تھی تو اسے تین دن بند کرکے ڈنڈے مارے گئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایک وزیر نے لندن جا کر انصاف لیا، مراد سعید بھی برطانیہ جا کر انصاف کے حصول کیلئے مقدمہ کرنے کا سوچ رہے ہیں، شوکت خانم کے بارے میں جنگ گروپ نے لکھا کہ شوکت خانم کا پیسہ پی ٹی آئی کو جا رہا ہے، ہمارا مؤقف تک نہیں لیا گیا، حنیف عباسی کے الزامات کے خلاف شوکت خانم ہسپتال کیس ماتحت عدالت میں جیت گیا لیکن 10 سال ہو گئے انصاف نہیں ملا، اب شوکت خانم ہسپتال والے لندن جا کر کیس کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ آزادی صحافت کے نام پر مافیاز بلیک میل کر رہے ہیں اور پیسے لے کر گند اچھالا جا رہا ہے، میں نے ساری زندگی تنقید برداشت کی، انگلینڈ میں بھی میں نے ہرجانے کا کیس کیا، وہاں کسی کی جرأت نہیں ہو سکتی کہ ایسی غیر ذمہ دار خبریں دی جائیں، یہ قانون اس ملک کیلئے ضروری ہے، مائیں مجھے کال اور میسج کرتی ہیں کہ صورتحال میں کیا کریں۔
وزیراعظم نے کہا کہ پیکا قانون سے اچھے صحافی خوش ہوں گے، اچھی صحافت معاشرے کا اثاثہ ہے، میڈیا کی تنقید غلطیوں کو سمجھنے کا موقع دیتی ہے لیکن وزیراعظم کی اہلیہ پر کیچڑ اور گند اچھالنا کہاں کی صحافت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم کے بارے میں تین بڑے اخباروں نے لکھا کہ انہیں جادو ٹونے کے ذریعے منتخب کیا گیا، مغرب میں کوئی ایسا لکھتا تو اتنا بڑا جرمانہ ہوتا کہ اخبار ہی بند ہو جاتا۔ معاشی صورتحال کے حوالہ سے وزیراعظم نے قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ 2018ء میں جب ہمیں حکومت ملی تو تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ ورثہ میں ملا، اندرونی اور بیرونی مالیاتی خسارے کا سامنا تھا، تین ہفتے کی درآمدات کیلئے بھی پیسے نہیں تھے، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ہو گئے تھے، مشکل وقت سے ہم نکل ہی رہے تھے کہ کورونا آ گیا، یہ ایک ایسا بحران تھا جو 100 سال میں ایک بار آتا ہے، کورونا کے باعث دنیا کے حالات تبدیل ہو گئے اور اچھی بھلی معیشتیں اجڑ گئیں، برطانیہ جیسا ملک اس سے شدید متاثر ہوا، ہماری گروتھ ریٹ جو کہ 0.2 فیصد بھی نہیں تھی، کے باوجود پاکستان کورونا سے نمٹنے میں کامیاب ہوا، کورونا کی وجہ سے دنیا میں لاک ڈائون ہوئے اور سپلائی لائنز متاثر ہوئیں جس سے اشیاء ضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئیں اور پوری دنیا میں مہنگائی کی لہر آ گئی، ہم دنیا سے علیحدہ نہیں ہیں، تیل، گھی اور دالوں سمیت پاکستان بیشتر اشیاء ضروریہ باہر سے منگواتا ہے، ہماری 60 فیصد بجلی درآمدی تیل پر منحصر ہے، کوئلہ اور گیس سمیت ہر چیز کی قیمتیں بڑھ گئیں، ہم سے مضبوط ملک بھی اس صورتحال سے شدید متاثر ہوئے، امریکہ جس کی معیشت سب سے زیادہ تگڑی سمجھی جاتی ہے، میں 40 سال میں سب سے زیادہ مہنگائی ہوئی اور مہنگائی کی شرح 1.5 فیصد سے 7.5 فیصد تک پہنچ گئی، کینیڈا میں 30 سال میں سب سے زیادہ مہنگائی کی لہر آئی، برطانیہ میں 1992ء کے بعد اور ترکی میں 20 سال کے بعد اتنی مہنگائی ہوئی۔
وزیراعظم نے کہا کہ وہ جو اعداد و شمار دے رہے ہیں عوام چاہیں تو خود گوگل پر یہ اعداد و شمار چیک کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے پہلے دور، 1971ء سے 1977ء تک 13.9 فیصد، دوسرے دور میں دو سال کے اندر 8.3 فیصد، تیسرے دور 1994ء سے 1996ء تک 11.6 فیصد تک مہنگائی ہوئی جبکہ آخری دور 2008ء سے 2012ء تک 13.6 فیصد تک مہنگائی ہوئی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں 1990ء سے 1993ء تک 10.8 فیصد، 1997ء سے 1999ء تک دوسرے دور میں 7.2 فیصد مہنگائی ہوئی جبکہ تیسرا دور جس میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دنیا میں سب سے کم تھیں، میں بھی 5 فیصد مہنگائی ہوئی۔ اس کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کے تین سال میں مہنگائی کی شرح 8.5 فیصد ہے، ماضی کے مقابلہ میں ہمارے دور میں مہنگائی کم ہے جبکہ اپوزیشن مہنگائی کے نام پر شور مچا رہی ہے اور ہماری حکومت گرانا چاہتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ نااہل حکومت ہے جبکہ بین الاقوامی طور پر دنیا نے تسلیم کیا کہ ہماری حکومت نے کورونا جیسے بحران میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اکانومسٹ میگزین نے لکھا کہ تین سالوں میں پاکستان اپنی کارکردگی کے لحاظ سے 190 ملکوں میں سے ان تین اولین ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اپنی معیشت بھی بچائی اور اپنے عوام کو بھی۔ ورلڈ اکنامک فورم نے بھی پاکستان کی کارکر دگی کو سراہا جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ہماری مثال دی، اگر ہم نااہل ہوتے تو کیا دنیا ہماری تعریف کرتی۔ وزیراعظم نے کہا کہ نے بل گیٹس مجھ سے ملنے آئے تو خاص طور پر پوچھا کہ پاکستان اس چیلنج سے کیسے نبرد آزما ہوا، جب وہ این سی او سی میں گئے تو وہاں انہوں نے ہماری پالیسیوں کی تعریف کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں گذشتہ ایک سال کے دوران پولیو کا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا، ہمارے احساس پروگرام کو ورلڈ بینک نے دنیا کے چار اولین پروگراموں میں شامل کیا جن کی وجہ سے عوام کی زندگیوں میں آسانی آئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ دنیا نے اس سے قبل پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کی پالیسیوں کی تعریف نہیں کی، موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالہ سے بھی دنیا ہماری کاوشوں کی معترف ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایسے وقت میں جبکہ معیشت پہلے ہی خراب تھی، پاکستان بھی کورونا کی لپیٹ میں آ گیا، اس کی وجہ سے پوری دنیا میں قیمتیں بلند سطح پر پہنچ گئیں، دوسرے طرف افغانستان کی صورتحال کے باعث لوگوں نے پاکستان سے ڈالر خریدنے شروع کر دیئے اور اب یوکرین کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ تمام مشکلات کے باوجود پاکستان کی معیشت بہتر ہوئی اور ہماری شرح نمو 5.6 فیصد ہے جو (ن) لیگ کے گذشتہ پانچ سالہ اقتدار کے آخری سال میں تھی جب عالمی حالات کا اثر بھی نہیں تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی غیر ملکی ترسیلات زر میں اضافہ ہوا، سمندر پار پاکستانیوں نے 31 ارب ڈالر کی رقوم بھیجیں، ہماری ایکسپورٹ پاکستان کی تاریخ میں اس وقت بلند ترین سطح پر ہیں، پاکستان نے 38 ارب ڈالر کی تاریخی برآمدات کی ہیں، 2000ء سے 2020ء تک کا گراف دیکھیں تو برآمدات کے لحاظ سے روانڈہ، ویتنام، چین، بھارت، بنگلہ دیش جیسے ملک کہاں سے کہاں چلے گئے لیکن ہماری برآمدات نہیں بڑھیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ مشکل حالات کے باوجود ہم نے ریکارڈ ٹیکس جمع کیا جو کہ 6 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہے، ٹیکسوں کی وصولی میں 31 فیصد اضافہ ہوا، ہماری چار بڑی فصلوں گندم، چاول، گنے اور مکئی کی ریکارڈ پیداوار ہوئی، یہ اس لئے ممکن ہوا کیونکہ حکومت نے کسانوں کو ان کا حق دلوایا اور انہیں کسان کارڈ کی سہولت دی، شوگر ملوں سے ان کے پیسوں کی ادائیگی کرائی، اس سے قبل کسان لائنوں میں لگے رہتے تھے لیکن انہیں پیسے نہیں ملتے تھے، ہم نے گنے کی فصل کی پوری قیمت دلوائی، حکومتی پالیسیوں کی بدولت کسانوں کے پاس 1100 ارب روپے زیادہ گئے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی زمینوں اور فصلوں پر زیادہ پیسے خرچ کئے جس کی بدولت ریکارڈ ممکن ہوئی۔
وزیراعظم نے کہا کہ لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی شرح نمو 7.4 فیصد رہی، بڑی کمپنیوں نے 930 ارب روپے کا ریکارڈ منافع کمایا، نجی شعبہ نے 1400 ارب روپے کے قرضے لئے جو ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے، ٹریکٹرز کی فروخت میں 20 فیصد، ٹرکوں اور بسوں کی فروخت میں 81 فیصد اضافہ ہوا، ٹیکسٹائل کے شعبہ نے بھی ترقی کی، تیل کی کھپت سب سے زیادہ رہی، تعمیرات کے شعبہ میں 1500 ارب روپے گئے جس سے روزگار کے مواقع بڑھے، پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 23.2 ارب ڈالر ہیں، ہم سمجھ رہے تھے کہ تیل کی قیمتیں جو دنیا میں اوپر چلی گئی ہیں یہ کم ہوں گی لیکن یوکرین میں جو رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ قیمتیں کم نہیں ہوں گی، گندم کی قیمت بھی اوپر جائے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن تنقید کرتی ہے لیکن وہ بتائے کہ اس کے پاس مسائل کا کیا حل ہے، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آج بھی دنیا کے مقابلہ میں پاکستان میں کم ہیں، پاکستان 90 ملکوں میں 25ویں نمبر پر ہے جہاں پٹرول کی قیمت سب سے کم ہے، پٹرول ترکی میں 200 روپے، بھارت میں 260 روپے، بنگلہ دیش میں 185 روپے فی لٹر ہے، اگر ہم ہر ماہ 70 ارب روپے کی سبسڈی نہ دیں تو پٹرول کی قیمت 200 روپے لٹر ہو، اوگرا نے مجھے سمری بھیجی کی کہ پٹرول 10 روپے بڑھانا پڑے گا لیکن میں نے فیصلہ کیا ہے کہ پٹرول 10 روپے بڑھانے کی بجائے 10 روپے کم کیا جائے، ہم اپنے لوگوں کو ریلیف دیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سستی بجلی ڈیموں سے پیدا ہوتی ہے لیکن 50 سالوں میں ڈیم نہیں بنائے گئے، اگر ماضی کی حکومتیں ڈیم بنانے پر توجہ دیتیں تو عوام کو سستی بجلی فراہم ہوتی، ہم آئندہ پانچ سے 10 سالوں کے دوران 10 ڈیم بنا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے بجلی کی قیمت میں بھی 5 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے 95 فیصد لوگوں کے بجلی کے بلوں میں 20 سے 50 فیصد کمی ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نے 80 لاکھ خاندانوں کیلئے احساس پروگرام کے تحت امدادی رقم کو 12 ہزار سے بڑھا کر 14 ہزار روپے کر دی ہے، گریجویٹس کو 30 ہزار روپے ماہانہ کی انٹرن شپ دلائیں گے، حکومت نے 26 لاکھ سکالرشپس دیئے ہیں اور اس کیلئے 38 ارب روپے خرچ کر رہی ہے، پی ایم پورٹل کے ذریعے اس کیلئے شفاف نظام وضع کیا گیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ آئی ٹی سیکٹر میں فری لانسرز اور آئی ٹی کمپنیوں کو ٹیکسوں میں 100 فیصد چھوٹ دی گئی ہے، فارن ایکسچینج پر 100 فیصد چھوٹ دی گئی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نے آئی ٹی سٹارٹ اپس کیلئے 100 فیصد کیپٹل گین ٹیکس ختم کر دیا ہے، جو بھی انڈسٹری لگائے گا اس سے سوال نہیں پوچھا جائے گا، کل لاہور میں انڈسٹریل پالیسی کے پیکیج کا اعلان کروں گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ سمندر پار پاکستانیز جو بھی سرمایہ کاری کریں گے یا جوائنٹ وینچر کے تحت کام کریں گے انہیں پانچ سال تک ٹیکسوں سے چھوٹ ہو گی، نوجوانوں اور کسانوں کو بلاسود قرضے دیں گے، غریبوں کو گھر بنانے کیلئے سستے قرضے دیئے جائیں گے، کسانوں، کاروبار اور گھروں کی تعمیر کیلئے دو سال کیلئے 407 ارب روپے کے قرضے دیئے جائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بینکوں کو بڑی مشکل سے عام آدمی کو قرضے دینے پر آمادہ کیا، پہلے بینک تنخواہ دار اور کمزور طبقے کو قرضے نہیں دیتے تھے، حکومت نے ان کیلئے آسانیاں پیدا کیں اور سبسڈائزڈ قرضے شروع کئے، کم آمدنی والے طبقات کیلئے بینک 150 ارب روپے کے قرضوں کی منظوری دے چکے ہیں جبکہ 50 ارب روپے کے قرضے اب تک دیئے جا چکے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ صحت انشورنس کارڈ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ ہے، یہ غریب گھرانوں کیلئے بالخصوص بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ غریب گھرانوں میں جب کوئی بیماری ہوتی تھی تو وہ علاج کرانے سے قاصر ہوتے تھے، چھوٹے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور نرسز نہیں ہوتے تھے جس کی وجہ سے لوگ بڑے شہروں کے ہسپتالوں کا رخ کرتے تھے، صحت کارڈ جیسی سہولت ترقی یافتہ ممالک میں بھی نہیں ہے، پنجاب میں مارچ کے آخر تک ہر گھرانے کے پاس صحت کارڈ کی سہولت ہو گی جس کے ذریعے 10 لاکھ روپے تک کا علاج کسی بھی پرائیویٹ ہسپتال سے کرایا جا سکے گا، اس سے پورا صحت کا ایک نظام وجود میں آئے گا اور دیہات میں بھی ہسپتالوں کا جال بچھ جائے گا، غریب سے غریب گھرانہ بھی پرائیویٹ ہسپتال سے علاج کی سہولت حاصل کر سکے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ حکومت گذشتہ ساڑھے تین سال کے دوران ایک مشکل سے نکلتی تھی تو دوسری مشکل آ جاتی تھی لیکن سارا وقت میں اور میری حکومت عوام پر بوجھ کم کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک اور معیشت اب صحیح راستے پر چل پڑے ہیں، بلومبرگ اور آئی ایم ایف کی رپورٹیں میری اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ پاکستان اب مشکل وقت سے نکل کر صحیح راستے پر چل پڑا ہے۔