پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی الیکشن کی تاریخ دے سکتے ہیں، چیف جسٹس سپریم کورٹ‌ (‌ازخود نوٹس کیس)

اسلام آباد :-
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے سے متعلق ازخود نو ٹس کیس میں نو رکنی لارجر بینچ ٹو ٹ گیا جس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطابندیال نے پا نچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا اور کیس کی سماعت کا آغاز کر دیا۔سپریم کورٹ کے نو رکنی لا رجر بینچ میں سے چار ججو ں نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ۔چار جج صاحبان جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نو ٹ لکھے جن میں سے دو ججو ں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا جبکہ جن دو ججو ں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر پی ڈی ایم میں شامل تین جماعتو ں نے اعتراضات اٹھائے تھے جس کے بعد ان دونو ں جج صاحبان نے بھی خود کو مقدمے کی سماعت سے الگ کر لیا۔کیس کی سماعت ساڑھے گیارے بجے کی بجائے دن ایک بجے کے قریب شروع ہوئی ۔سپریم کورٹ نے اپنے تحریری حکم نامے میں کہا کہ نو رکنی لارجر بینچ میں سے چار ججو ں کے اضافی نو ٹ اور کمیٹی روم میں بینچ کے اراکین کی بحث و مبا حثہ اور گفتگو بعد نئے بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوایا جاتا ہے۔عدالت نے چار ججو ں کے اضافی نو ٹ کو بھی عدالتی حکم نا مہ کا حصہ بنا لیا ہے ، جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس منیب اختر ،جسٹس جمال خان مندوخیل، اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل باقی 5 رکنی لارجربنچ نے کیس کی سماعت شروع کی،تو چیف جسٹس نے کہا کہ اضافی نو ٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے اپنا ذہن دے دیا ہے اور خود کو کیس سے الگ کر لیا ہے ،چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس جما ل خان مندو خیل کے نو ٹ پر ہماری تشویش ہے یہ سائن ہو نے سے پہلے پبلک ہو گیا اس کو عدالت میں پڑھا گیا اور اس کا سوشل میڈیا پر بھی حوالہ دیا گیا۔یہ غیر منا سب بات ہے ایسا نہیں ہو نا چا ہیے ،مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو، چیف جسٹس نے کہا کہ 4 معزز ممبرز جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے، اور اب عدالت کا پانچ رکنی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا، آئین کی تشریح کیلئے عدالت سماعت جاری رکھے گی، آئین کیا کہتا ہے اس کا دارومدار تشریح پر ہے،آج (منگل کو)ساڑھے 9بجے کیس کی سماعت شروع کرکے اسی روز ہی ختم کرنے کی کوشش کریں گے،چیف جسٹس نے کہا کہ از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ اس بات کا تعین کرے گا کہ آئین کے تحت مختلف حالات میں کسی صوبائی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری اور اختیار کس کے پاس ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلی کی تحلیل میں فرق ہے کے پی کے کی ا سمبلی کو گورنر نے تحلیل کیا لیکن پنجاب کی ا سمبلی کو گورنر نے تحلیل نہیں بلکہ از خود تحلیل ہوئی ا ور آئین میں ہے کہ الیکشن نو ے رو ز میں منعقد ہو ں گے کیا ان کو اس سے آگے لے جا یا جا سکتا ہے ۔علی ظفر ایڈوکیٹ نے کہا کہ الیکشن کو آئین کے مطابق نو ے رو ز کے اندر ہی منعقد ہونا ہے ان کو نو ے رو ز سے آگے نہیں لے جایا جا سکتا، آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں انتخابات لازمی ہیں،کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا اور 90 دن کی آئینی مدت کا آغاز 14 جنوری سے شروع ہوچکا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر پنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا ہے، گورنر کو کون مقرر کرتا ہے تو علی ظفر نے کہا کہ گورنر کا تقرر صدر مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے اور آئینی مدت کے بعد ازخود تحلیل ہونے میں فرق ہے۔عدالت نے کہا کہ پی ٹی آئی نے گورنر کے خلاف رٹ پٹیشن دائر کی گئی تھی اس کا کیا فیصلہ ہوا، علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ اس میں بھی کہا گیا ہے گورنر مشاورت کرکے تاریخ کا فیصلہ کرے، الیکشن کمیشن انتخابات کروانے کا پابند ہے، الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ملاقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، عدالت نے کہا کہ یعنی عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی ہے؟ کیا اس اجلاس کے منٹس بھی میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں؟علی ظفر نے کہا کہ یہ میڈیا رپورٹس ہیں کہ ایک اخبار نے تفصیل شائع کی، جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اس کے بعد انٹراکورٹ اپیل فائل ہوئی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو مجھے سمجھ آ رہی ہے اس کے مطابق الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ تاریخ کے لیے مشاورت آئین میں شامل نہیں لیکن ہائی کورٹ نے گورنر سے مشاورت کا کہہ دیا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ گورنر سے مشاورت کا فیصلہ ہمارے راستے میں ہے ، الیکشن کمیشن اگر خود تاریخ دیدے تو کیا یہ توہین عدالت ہوگی؟وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ سب تاخیری حربے ہیں ، الیکشن کمیشن کا تاریخ دینا آینی عمل ہے، کوئی بھی تاریخ نہیں دے رہا اور پہلے آپ نہیں ، پہلے آپ چل رہے ہیں، جس کا نتیجہ تاخیر ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ازخود نوٹس میں سوال ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا، وکیل علی ظفر نے کہا کہ کسی نے تو انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس میں الیکشن دس سال تاخیر کا شکار ہو جائے،دوسرا فریق بتا دے الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے ، جسے یہ کہتے ہیں اسے تاریخ کا اعلان کرنے دیں ، خیبرپختونخوا میں صورتحال مختلف ہے،جب انہو ں نے تاریخ نہیں دی تو صدر نے آرٹیکل 57کے تحت اپنے اختیارات کا ستعمال کر تے ہوئے دونو ں صوبو ں میں الیکشن کی تاریخ دے دی اور صدر کو اس بات کا مکمل اختیار حاصل ہے،جسٹس جما ل خان مندوخیل نے کہا کہ اگر اپ صدر کی تاریخ سے راضی ہیں تو یہا ں کیو ں آئے تو علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اس کو نہیں مان رہا، خیبرپختونخوا میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے پر دستخط کیے ہیں لیکن انہو ں نے بھی خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کر رہا تھا کے پی کے کا معاملہ مبہم نہیں ہے کہ گورنر یہ کہے کہ میں نے تو اسمبلی تحلیل نہیں کی اس لیے تاریخ نہیں دے سکتا،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں کیس کی اگلی سماعت کل ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے 21 دن کا نوٹس کیوں دیا فریقین کو ؟ یہ خالص آئینی معاملہ ہے اس کیس میں قانونی نقطہ طے کرنا ہے یہ کوئی دیوانی مقدمہ تو نہیں جو اتنا وقت دیا گیا،ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ گورنر خیبرپختونخوا کہتے ہیں تاریخ دینے کے لیے نوے روز کی مہلت ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 90 دن تاریخ کے لیے ہیں تو الیکشن کب ہوں گے۔اس دوران عدالت نے گورنر خیبرپختونخوا کے سیکریٹری کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو سیدھا سادھا کیس ہے اپ نے الیکشن کی تاریخ دینا ہے18 جنوری سے گورنر تاریخ دینے میں ناکام رہے ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ میں 3 آئینی درخواستیں زیر التوا ہیں، علی ظفر نے کہا کہ میری نظر میں گورنر کے پی کو ایسا خط لکھنے کا اختیار نہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کے پی میں بھی اسمبلی تحلیل ہوئی ہے وہاں اب کیا پوزیشن ہے؟علی ظفر نے کہا کہ گورنر کے پی نے الیکشن کمیشن کو سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا کہا ہے، گورنر کے پی نے اپنے خط میں سیکیورٹی کو بنیاد بنایا ہے۔اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون جاری کرتا ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری کر سکتا ہے؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نوٹیفکیشن کے مطابق 48 گھنٹے گزرنے کے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق نوٹیفکیشن حکومت نے جاری کیا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نوٹیفکیشن سے پہلے کسی نے تو حکم جاری کیا ہی ہوگا؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ گورنر کا کردار پارلیمانی جمہوریت میں پوسٹ آفس کا ہی ہے، کیا گورنر اپنی صوابدید پر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر کی صوابدید ہے کہ وہ کوئی سمری منظور کرے یا واپس بھیج دے، اسمبلی تحلیل پر گورنر کا کوئی صوابدیدی اختیار نہیں، گورنر اگر اسمبلی کی تحلیل کی سمری منظور نہ کرے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ گورنر کی صوابدید یہ نہیں کہ اسمبلی تحلیل ہوگی یا نہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر سمری واپس بھیجے تو بھی اڑتالیس گھنٹے کا وقت جاری رہے گا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ گر گورنر سمری واپس بھیجے تو 48گھنٹے کا وقت کہاں سے شروع ہوگا؟ علی ظفر نے کہا کہ میری نظر میں گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری واپس نہیں بھیج سکتا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری کو واپس نہیں بھیج سکتا، چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کے لیے گورنر کو کسی سمری کی ضرورت نہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 112تھری کے تحت گورنر ازخود اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے؟ آرٹیکل 112 میں 2 صورتیں ہیں کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دیتا ہے یا نہیں؟ آرٹیکل 112 کی ذیلی شق ون میں گورنر کی صوابدید ہے کہ تحلیل کریں یا نہیں، اب بتائیں کہ کیا گورنر کے پاس صوابدید ہے یا ان کا کردار مکینیکل ہے؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر اسمبلی 48 گھنٹے بعد تحلیل ہوتی ہے تو آئین کے تحت نوٹیفکیشن کون کرتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر کے صوابدیدی اختیارات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ علی صاحب آپ سب کے ہی سوالات پر کہہ رہے ہیں جی بالکل، کیا آپ سب کے سوالات سے اتفاق کرتے ہیں؟ اگر الیکشن کے دن ملک میں جنگ ہو یا زلزلہ آجائے تو کیا ہوگا، انتخابات کی تاریخ گورنر دے دے تو بھی قدرتی آفات آسکتی ہیں، جنگ ہو یا کرفیو لگ جائے تو انتخابات کیسے ہوں گے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ قانون میں سیلاب اور قدرتی آفات کا ذکر ہے مگر جنگ کا نہیں ہے، الیکشن کمیشن مخصوص پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ ملتوی کر سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ قانون میں جنگ کا کہیں ذکر نہیں اس کے لیے ایمرجنسی ہی لگائی جاسکتی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 1976 میں آئین خاموش تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے، اسمبلی نے ترمیم کرکے صدر اور گورنر کو تاریخ دینے کا اختیار دیا، پنجاب کی حد تک صدر نے شاید تاریخ درست دی ہو۔چیف جسٹس نے کہا کہ 2013اور 2018میں جب اسمبلیاں تحلیل ہوئی تو کس نے تاریخ دی جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ صدر نے تاریخ دی تھی،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سمری آنے پر اسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے، گورنر اپنے حکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دے گا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کرا سکتا ہے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اسے ہی اختیار ہونا چاہیے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین کو بالکل واضح ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں، پارلیمان کی بصیرت کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جہاں اسمبلی کی تحلیل میں گورنر کچھ نہیں کرتا ہے تو وہاں تاریخ کون دے گا،جہاں وزیر اعلیٰ اسمبلی توڑتا ہے گورنر پکچر میں نہیں وہاں گورنر کا کیا اختیار ہوگا، فرض کریں اس تاریخ پر جنگ شروع ہوجائے یا کوئی ایسا واقع ہو جائے تو الیکشن کمیشن انتخابات نہیں کرواسکتا تو الیکشن کمیشن ایسے میں کیا کرے گا۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ ایسے کسی واقعے سے کوئی علاقہ یا کچھ علاقے متاثر ہوسکتے تو ان حلقوں مین الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا ایسی کوئی شق نہیں ہے کہ ملک میں کچھ بھی ہو جائے الیکشن ملتوی نہیں ہوسکتے،جج کے سوال پر ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیکشن 58 کے تحت نا گزیر حالات میں الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جہاں گورنر ناکام ہوجائے تو وہاں صدر آئے گا، علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے،گورنر اسمبلی تحلیل کرتا ہے تو تاریخ بھی گورنر دے گا، چیف جسٹس نے کہا کہ دوسری صورت ہوگی تو الیکشن کمیشن ایکٹ کرے گا۔علی ظفر نے کہا کہ گورنر تاریخ نہ دے تو صدر مملکت تاریخ دے گا، چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر صرف تاریخ دے یا اس پر کوئی غور و فکر کرسکتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن اگر الیکشن کرا نے پر راضی تو ہو لیکن وسائل نہ ہوں تو پھر کیا ہوگا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ 10 سال الیکشن نہ ہوں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پورے پاکستان میں کرکٹ ہورہی ہے لیکن انتخابات نہیں ہوسکتے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سمری آنے پر اسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے، گورنر اپنے حکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں،عدالت میں سپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد عدالت نے سماعت آج صبح 9:30 بجے تک ملتوی کرد ی ۔آج عدالت میں ایڈوکیٹ فاروق ایچ نا ئیک اٹارنی جنرل سلیمان اکرم راجہ اور دیگر وکلاء دلا ئل دیں گے۔
۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں