سپریم کورٹ کے حکم پرآئین سے انحراف کرکے الیکشن کیلئےفنڈزنہیں دے سکتے، اسحاق ڈار

اسلام آباد( یو این آئی )وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے کہا ہے کہ فنڈزمل بھی جائیں تو90 روزمیں الیکشن ہونگے؟ نہیں ہونگے،خیبرپختونخوا اورپنجاب اسمبلیاں ٹوٹنےسےمتعدد مسائل نے جنم لیا،آرٹیکل 63 اے کوری رائٹ نہ کیا جاتا توپورے ملک میں ایک ہی روزانتخابات ہوتے۔

اسپیکرراجہ پرویزاشرف کی زیرصدارت قومی اسمبلی کااجلاس ہوا، جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹراسحاق ڈارنے کہا کہ پاکستان کوموجودہ حکومت نےبحران میں نہیں دھکیلا،بلکہ گزشتہ حکومت نےملک کواس نہج پرپہنچایا،5سال کےدوران ملک میں پانامہ اورڈان ڈرامہ ہوا،5سال میری بات مانی ہوتی توہم بحران میں نہ پھنستے،ملک تباہ کرنےوالوں کوبےنقاب کرناچاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بدترین معاشی بحران سےنکل رہاہے،جوتماشےہورہےہیں کیاپاکستان اس کامتحمل ہوسکتاہے؟مردم شماری پر35ارب روپےخرچ کررہےہیں، پیسےمل جائیں توکیا 90 دن میں الیکشن ہوں گے؟نہیں ہونگے ،کیاپہلی بارملک میں90دن میں الیکشن نہیں ہورہے؟۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ 2اسمبلیاں توڑکرملک میں افراتفری پھیلانےکی کوشش کی گئی،خیبرپختونخوااورپنجاب اسمبلیاں ٹوٹنےسےمتعددمسائل نےجنم لیا،اسمبلیاں ٹوٹنےکےبعدالیکشن کمیشن نےوزارت خزانہ سےفنڈزمانگے،الیکشن کمیشن نےعام انتخابات کیلئے54ارب روپےکامطالبہ کیا،گزشتہ بجٹ میں عام انتخابات کیلئے5ارب روپےمختص کیےگئے،پنجاب اسمبلی نہ توڑی جاتی توملک بھرمیں ایک ساتھ الیکشن ہوتے۔

سینیٹراسحاق ڈارنے کہا کہ سپلیمنٹری گرانٹ کاعمل مکمل ہونےتک وزارت خزانہ کچھ نہیں کرسکتی، آئین میں درج طریقہ کارسےہٹ کرفنڈزجاری نہیں کرسکتے، اسٹیٹ بینک فنڈزجاری نہیں کرسکتاتھا، سپریم کورٹ کے حکم پرآئین سے انحراف کرکے الیکشن کیلئےفنڈزنہیں دےسکتے،ایک اورحکم آیااوراسٹیٹ بینک کوفنڈز دینےکاکہاگیا ، الیکشن کیلئےفنڈزدینےکابل ایوان نےمستردکیا،کابینہ یااقتصادی رابطہ کمیٹی سمری کےبغیرفیصلہ نہیں کرسکتی۔

اسحاق ڈارنے کہا کہ 2اسمبلیاں توڑکرملک میں افراتفری پھیلانےکی کوشش کی گئی،25ممبران کاکوئی گناہ نہیں تھا،ان کےووٹ نہیں گنےگئے،63اےکی نئی تشریح کےباعث خرابی پیدا ہوئی،63اےکوری رائٹ نہ کیاجاتاتوپورےملک میں ایک وقت میں الیکشن ہوتے۔

اس سے قبل قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آپ کی اجازت سے ایک اہم معاملہ پیش کرنا چاہتا ہوں، پنجاب، خیبرپختونخوا اسمبلیوں کو ایک شخص کی انا کی بھینٹ چڑھایا گیا، لاہور ہائیکورٹ میں ابھی پٹیشن پینڈنگ تھی کہ 9 رکنی بینچ بنایا گیا، دو جج صاحبان نے رضا کارانہ طور پر کیس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، سات میں سے چار معزز جج صاحبان نے درخواستیں خارج کی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ایوان نے قرارداد منظور کی یہ سیاسی مقدمہ تھا، معزز ایوان نے طے کر دیا تھا ایوان چار جج صاحبان کا فیصلہ مانتا ہے، ایوان اقلیتی فیصلے پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہوگا، عدالت سے پھر وفاقی حکومت کو 21 ارب فنڈز جاری کرنے کا حکم دیا گیا، سپریم کورٹ نے پھر سٹیٹ بینک کو رقم جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس صورتحال میں قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے نوٹس لیا، قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے میری بھی رائے لی تھی، ایک چیز کلیئر ہے فیڈرل کنسوڈیلٹی فنڈز جاری کرنا ایوان کا اختیار ہے، اس کیس میں عدالتی احکامات تھے، ایوان دو دفعہ کلیئریٹی کے ساتھ اپنا موقف دے چکا تھا، ایوان اکثریتی رائے اور قرارداد منظور کر چکا تھا، فنڈز کا اجرا ایوان کا اختیار ہے۔

وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت 21 ارب جاری کر بھی دے تو ایوان نے منظوری دینی ہے، ایوان نے پھر قومی خزانے سے نکلنے والے 21 ارب کا حساب دینا ہے، دوبارہ حکم دیا گیا حکومت فنڈز ریلیز کر دے، عدالت نے کہا لگ رہا ہے وزیر اعظم ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں، ایسا نہیں ہے قومی اسمبلی کی اکثریت آج بھی وزیر اعظم پر اعتماد کا اظہار کرتی ہے۔

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ آئین کےآرٹیکل 82 میں واضح درج ہے جب بھی رقم نکلے گی وہ قومی اسمبلی کی منظوری سے مشروط ہو گی، وفاقی کابینہ نے آج پھر مناسب جانا اس ڈیمانڈ کو ایوان کے سامنے رکھا جائے، میری استدعا ہو گی ایسی صورتحال میں ایوان اپنے پہلے کیے ہوئے فیصلوں کی توثیق یا نظرثانی کرے، اپنا خلاصہ سامنے رکھ دیا ہے، وزیر خزانہ کا ریویو بھی لیا جا سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں