اقدار کا فقدان

جب سے نجی تعلیمی اداروں نے پنپنا شروع کیا ہے تعلیم کے شعبے میں بے انتہا ترقی دیکھنے میں آئی ہے۔ بڑی بڑی چینز اور سسٹم وجود میں آئے ہیں۔ چینز اور سسٹمز نے کوشش کی ہے کہ ان کا تعلیمی معیار سب برانچز میں ایک جیسا رہے۔ اس کے لئے ٹیچرز ٹریننگ، سلیبس کی یکسانیت اور تربیت کے معیار مقرر کئے گئے۔ ان ساری کاوشوں کے باوجود جس چیز کی کمی محسوس ہوئی وہ تربیت میں اقدار کا فقدان تھا۔ یہ بات صرف چینز تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں تمام تعلیمی ادارے (نجی یا سرکاری) بھی برابر کے شریک ہیں۔ زیادہ سے زیادہ طلبہ کو متوجہ کرنے کے لئے مختلف طریقے آزمائے گئے جن میں بورڈ میں پہلی پوزیشن کا حصول تھا۔ اس کو حاصل کرنے کے لئے طلبہ کو رٹا اور گھوٹا جیسے طریقہ تعلیم اور بورڈز میں واقفیت کو بروئے کار لانے جیسے مختلف طریقے آزمائے گئے۔ اچھی پوزیشن لینے کے بعد بڑے بڑے بل بورڈز کے ذریعے اپنی کامیابیوں کا چرچا بھی اس میں شامل تھا۔ طلبہ کی تعداد بڑھانے کے لئے مختلف قسم کے وظائف کا لالچ بھی دیا گیا۔ اس سے ایک فائدہ ہوا کہ ذہین طلبہ کی کثیر تعداد ان سکولوں کو میسر آ گئی اور آئندہ کے لئے بھی ان کے بورڈ میں نتائج بہتر ہو گئے۔
اس سارے فسانے میں جس بات کی قربانی دی گئی وہ اقدار تھیں۔ بچوں کو ایک ہی سبق سکھایا گیا کہ اگر آپ نے بورڈ میں 90 فیصد سے زائد نمبر لے لئے تو زندگی میں کامیابیاں آپ کا مقدر ہوں گی۔ رٹا اور گھوٹا نے ان کی تخلیقی اور استدلالی صلاحیتوں کو ختم کر دیا۔ وظائف اور فیسوں میں کمی جیسے اقدامات کی بدولت والدین سمیت بچوں میں لالچ کا عنصر نمایاں ہو گیا۔ انہیں یہ سکھا دیا گیا کہ “پیار اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے”۔
سنجیدہ طبقوں میں یہ ساری صورتحال پریشان کن ہے لیکن ان کے پاس اس کا کوئی حل نہیں۔ سوسائٹی میں ہر طرف عجیب افراتفری کا عالم ہے۔ آئے دن مقتدر اداروں کے ایسے فیصلے آتے ہیں جن کو دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ راقم جو خود بھی ایک استاد ہے اور ایک نجی سکول کا پرنسپل نے ہمیشہ ان سب برائیوں کا ذمہ دار اساتذہ اور سکولوں کو قرار دیا ہے جو طلبہ کے تربیت کرتے وقت مذہبی اور قومی اقدار کو قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ والدین بھی برابر کے شریک ہیں۔والدین کا اپنے بچوں سے صرف نمبر گیم میں سب سے آگے ہونے کا تقاضا ہوتا ہے۔
سارے اساتذہ کی تربیت میں تین چیزوں پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے طلبہ میں تین صلاحیتوں کو پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ علمی مہارت، نفسی حرکی مہارت اور جذباتی مہارت۔ علمی مہارت پر زور دیا جاتا ہے لیکن اس میں بھی علم اور فہم پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ تجرباتی صلاحیتوں کو بھی کسی حد تک اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن تجزیاتی، مرکباتی اور تشخصیاتی حدود تک پہنچنے کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ علمی مہارت بھی 30 سے 50 فیصد تک ہی دی جاتی ہے۔ نفسی حرکی مہارتوں میں 70 سے 80 فیصد تک کامیابی حاصل کی جاتی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جذباتی مہارت کو خاطر میں نہیں لایا جاتا اور یہ 10 فیصد بھی پیدا نہیں کی جاتی۔
جذباتی مہارت نہ ہونے کی وجہ سے ایسے طلبہ کی کھیپ تیار ہوتی ہے جو اقدار سے بے بہرہ ہوتی ہے۔ دوسروں کے جذبات کی قدر نہ کرنا اور دوسروں کی ضروریات کا خیال نہ رکھنے سے سوسائٹی میں گوناگوں مسائل جنم لیتے ہیں اور کل کے طلبہ جب آج کے معمار بنتے ہیں تو ان کے فیصلوں کی وجہ سے قوم کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔
اس تمام صورت حال کا حل کیا ہے؟ اس کا حل صرف اور صرف اقدار کے وجود سے ممکن ہے کہ سکولوں کے پرنسپل، ہیڈماسٹر اور اساتذہ قومی اور مذہبی اقدار طلبہ میں پیدا کریں۔ سب سے پہلے ہمیں اقدار کا تعین کرنا ہو گا۔ راقم نے تین اقدار پر ہمیشہ زور دیا ہے۔ دیانتداری(جب کوئی آپ کو دیکھ نہ رہا ہو )، دوسرے اپنے سے آگے اور بہترین کی جستجو۔ اس کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ دیانتداری پر مبنی خدمت فرض اولین اور ہر کام میں کمال۔ یہ تین اقدار کیسے پیدا کی جائیں؟ ان اقدار کو دن میں اتنی دفعہ دہرایا جائے کہ وہ ایمان کا درجہ اختیار کر لیں۔ اس ایمان کو ہر کام کرنے سے پہلے یقین میں تبدیل کیا جائے۔ اپنے اردگرد کے لوگوں میں ان اقدار کو فروغ دیا جائے۔ وزیر اعظم یہ کام شروع کریں۔ اپنا اور اپنے وزراء کا ایمان بنائیں، پرنسپل اور ہیڈماسٹر سکولوں میں اس کا عملی نمونہ بنیں اور اساتذہ میں ان اقدار کو فروغ دیں۔ طلبہ کا ایمان ان اقدار میں بار بار دہرا کر اس قدر پختہ کیا جائے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے سے لے کر عملی زندگی میں داخل ہونے کے بعد بھی ان کا دامن مضبوطی سے پکڑے رکھیں۔ راقم کا یقین کامل ہے کہ ان اقدار کو ایمان اور یقین بنانے کے بعد قومی سلامتی، خاندان اور بچوں کی سلامتی کے ساتھ ساتھ عالمی انسانیت کی سلامتی بھی یقینی ہو جائے گی۔
عرفان طالب،
پرنسپل،
پریزنٹ ٹائمز پبلک سکول اینڈ کالج،
ایبٹ آباد۔
Email; [email protected]

اپنا تبصرہ بھیجیں