میرے قلم سے— تحریر۔ابن ِسرور

میرے قلم سے— تحریر۔ابن ِسرور
ملک کے حالات کی خرابی کوئی نئی بات نہیں ، ہم ہمیشہ سے یہ سنتے آئے ہیں کہ ملک نازک دوراہے پر کھڑا ہے یا ملک نازک دور سے گزر رہا رہا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان جب سر اقتدار آئے تو انھیں بھی وہی ملک ملا جو نازک دور سے گزر رہا تھا ، چونکہ عمران خان کا یہ پہلا اقتدار تھا اور اس سے پہلے انھیں حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا اس لیے ابتداء میں ان کو اندازہ نہیں تھا کہ انھوں نے کس کھولی میں ہاتھ دیا ہے ، آہستہ آہستہ انھیں کھولی کی گہرائی کا اندازہ ہونا شروع ہوا تو انھیں پتہ چلا کہ انھوں نے کتنی بڑی مصیبت اپنے سر لے لی ہے ، کیونکہ جانے والے تو ملک کا ہر ادارہ تباہ کرکے اور اسے قرضوں کی دلدل میں پھنساکر چلے گئے تھے ، ایسے گھمبیر مسائل کے باوجو داب تک کسی بھی مرحلے پر ایسا محسوس نہیں ہوا تھا کہ وہ(عمران خان ) کسی بھی مصیبت سے گھبرا گئے ہیں ، بلکہ انھوں نے بڑے عزم اور حوصلے سے بحیثیت وزیر اعظم اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا آغاز کیا، ان کی سب سے پہلی ترجیح ملکی معیشت کو سہارا دینا اور اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنا تھا جس کے لیے انھوں نے ہنگامی بنیادوں پر کا م کی ابتداء کی اور مشکل فیصلے لینا شروع کیے ، ان کے اقتدار میں آنے کے بعد دنیا میں پاکستان کا ایک نیا تشخص ابھرنا شروع ہوا اور عالمی سطح پر ہم سے زیادہ اس بات کو مانا گیا کہ پاکستان میں برسراقتدار آنے والا شخص کرپٹ ترین ہونے کی شہرت رکھنے والے ماضی کے حکمرانوں سے مختلف اور دیانتدار و ایماندار ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے بعض پڑوسی اور دوست ممالک کی جانب سے فوری مالی سپورٹ کے اقدامات لیے گئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نئی حکومت کو فورا ہی کن مشکلات کا سامنا ہو گا ، اس لیے انھوں نے فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مالی سپورٹ کا اعلان کیا ، زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے خود وزیر اعظم نے بھی غیر ملکی دوروں کا آغاز کیا ، پہلے ایک ڈیڑھ سال کے اختتام پر ملک کے لیے کچھ اچھی خبریں آنا شروع ہوئیں اور یہ کہا جانے لگا کہ معیشت اپنے پیروں پرکھڑا ہونا شروع ہو گئی ہے لیکن ابھی اس منزل کے حصول کی ابتدا ء ہی تھی کہ عمران خان حکومت کے لیے نئے مسائل جنم لینے لگے ، اس وقت شاید اگر کوئی اور وزیر اعظم ہوتا تو وہ ان مسائل میں گھبرائے بغیر نہ رہتا لیکن عمران خان نے کسی بھی مرحلے پر قوم کو یہ محسوس نہ ہونے دیا کہ وہ گھبرا گئے ہیں بلکہ انھوں نے پہلے سے بھی زیادہ ہمت دکھانے کی کوشش کی اور قوم کو بھی یہ نصیحت کرتے رہے کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے ، موجودہ حکومت کو اپنے اس مختصر دور اقتدار میں جن نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ان میں کورونا ایک ایسا مسئلہ تھا جس کا پاکستان ہی نے نہیں بلکہ پوری دنیا نے پہلی دفعہ سامان کیا ، یہ بلکل ایک نئی بیماری تھی جس کی دنیا میں کوئی دوا بھی موجود نہ تھی لہذا اس نے اپنا علاج دریافت ہونے سے قبل دنیا میں خوب ادھم مچایا اور لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کو نگل لیا ۔ اس بیماری نے عالمی معیشت کو بری طرح متاثرکیا، پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے اپنے بہتر مینجمنٹ کے ذریعے اس بیماری کے مضر اثرات کوکنٹرول کرنے میں کئی ترقی یافتہ ملکوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اس حوالے سے ان کی حکومت کی کارکر دگی کو عالمی سطح پر سراہا گیا مگر وہ ملکی معیشت پر کورونا کے منفی اثرات کو نہ روک سکے اس کی وجہ ہماری معیشت گی پہلے سے چلی آ رہی بری صورتحا ل تھی ، کورونا کے علاوہ ان کو ملنے والے چیلنجز میں بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور افغانستان کی صورتحال بھی شامل تھی ، وہ ان چیلنجز سے بطریقے احسن نبرد آزما ہو ئے ، اس دوران ان کو اپوزیشن کی جانب سے بھی ٹف ٹائم دینے کی کوشش کی گئی مگر وہ اپنے احتساب کے نعرے سے پیچھے نہ ہٹے اور تمام تر دباو کے باوجود انھوں نے ن لیگ کی قیادت کو این آر او دینے کے معاملے میں بھی کمزوری نہ دکھائی بلکہ وہ اپنے این آر او نہ دینے کے فیصلے پر ڈٹے رہے ،ہاں اگر کسی معاملے پر ان کی کارکردی ناقص رہی تو وہ ہے مہنگائی جو اپنے ان کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے ، اس خطر کی ایک جھلک وہ کنٹونمنٹ بورڈ کی بلدیاتی الیکشن میں دیکھ چکے ہیں جس میں ان کی جماعت کے مقابلے میں ن لیگ نے زیادہ بہتر کارکردگی دکھائی اور اکثر کنٹونمنٹس سے تحریک انصاف کو بلکل آوٹ کر دیا ، یہ درست ہے کہ مہنگائی اس وقت ایک عالمی مسئلہ ہے اور کوئی بھی ملک مہنگائی کی لہر سے محفوظ نہیں مگر ہمارے میں مہنگائی میں بہت سے اپنوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے جو یہاں مافیاز کی صورت میں پائے جاتے ہیں اور جن کی زندگی کا مقصد ہی ذخیرہ اندوزی کرنا ، ناجائز ذرائع سے دولت بنانا اور اپنے لیے قبر کا عذاب جمع کرنا ہے ، مگر دولت کی ہوس میں ان کو قبر کے عذاب کی کوئی فکر نہیں ، یہ مافیاز ہمارے ملک میںاتنے طاقتور ہیں حکومت بھی ان کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے ، یہی قوتیں ہیں جو کسی بھی ملک میں قیمتوں کے اتار چڑھاو کو کنٹرول کرتی ہیںوالے سے حکومتوں کو مفلوج کر دیتی ہیں ، اس بات سے انکار نہیں کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کو روکنا حکومت کے کنٹرول میں نہیں لیکن روپے کی قدر میں بے تحاشہ کمی اور مافیا ز کی من مانیاں حکومت کی ناکامی انتظامی کمزوری کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور اس صورتحال کے نتیجے میں اب مہنگائی جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس سے خود وزیر اعظم بھی پریشان دکھائی دینے لگے ہیں ، گذشتہ دنوں اپنے ایک خطاب میں کسی قدر مایوس دکھائی دیے کہ ان کا خطاب سن کر یہ اندازہ ہوا کہ وہ گھبرا گئے ہیں ، مگر ہمارا ان کو یہ مشورہ ہے کہ گھبرائیں نہیں بلکہ مصنوعی مہنگائی کے ذمہ داروں کو قانون کی گرفت میں لائیں اور حکومت کی رٹ قائم کریں تاکہ مہنگائی میں کچھ تو کمی ہو ورنہ وہ اگلے الیکشن میں اپنا بوریا بسترا گول سمجھیں

اپنا تبصرہ بھیجیں