اسلام آباد( یو این آئی نیوز) پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کے حوالے سے کوئی گفتگو نہیں ہو رہی تاہم آئندہ سال فروری تک اس کا گرے لسٹ کا سٹیٹس برقرار رہے گا ، پاکستان مجموعی طور پر اس نئے ایکشن پلان پر بہتر کار کردگی دکھا رہا ہے۔ اس نے 34 میں سے 30 نکات پر عمل در آمد کر لیا ہے جس سے پاکستانی حکومت کا عزم واضح ہے ۔ ان خیالات کا اظہار فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے صدر مارکوس پلیئر نے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کے اختتام پر نیو ز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ، ایف اے ٹی ایف کا اجلاس پیرس( فرانس ) میں منعقد ہوا ، تین روز تک جاری رہنے والے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عملدرآمد کے حوالے سے پاکستان کی کارکردگی کو بیحد سراہا گیا مگر اس کے حوالے سے اپنے جانبدارانہ رویے کو برقرار رکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اسے گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ڈاکٹر مارکوس پلیئرنے کہا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کو مزید چار ماہ کے لیے نگرانی کی گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے گا اور اس کے سٹیٹس میں تبدیلی کا فیصلہ فروری 2022 میں ہو گا۔انھوں نے شرائط پر عملدرآمد کے حوالے سے پاکستان کی کارکردگی کو سراہا اور کہا کہ پاکستان مجموعی طور پر اس نئے ایکشن پلان پر بہتر کار کردگی دکھا رہا ہے۔ اس نے 34 میں سے 30 نکات پر عمل در آمد کر لیا ہے جس سے پاکستانی حکومت کا عزم واضح ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسی وجہ سے پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کے حوالے سے کوئی گفتگو نہیں ہو رہی۔ پاکستانی حکومت ہمارے ساتھ تعاون کر رہی ہے اور ہم انہیں کہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد باقی چار نکات پر عمل در آمد کریں۔انہوں نے کہا کہ ترکی کو منی لانڈرنگ کے خلاف قوانین پر عمل درآمد بہتر کرنا ہوگا۔ زمبابوے نے بہتر کارکردگی دکھائی، مالی، اردن اور ترکی نے نظام بہتر کیا ہے۔ ماریشیئس کو گرے لسٹ سے نکال رہے ہیں۔ آف شور کمپنیوں میں سرمائے کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے، آف شور کمپنیوں میں منی لانڈرنگ کے سرمائے کا جائزہ لیں گے۔ منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے مشترکہ کوششیں کررہے ہیں، منی لانڈرنگ کی روک تھام میں پینڈوارا پیپرز نے بھی معاونت کی۔واضح رہے کہ ایف اے ٹی ایف کے جون کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے دو ایکشن پلان دیے گئے تھے۔ پاکستان کے لیے ضروری تھا کہ دونوں ایکش پلان پر مکمل عملدرآمد ہو۔ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف اور ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کی میوچل ایوالیویشن جیسی دہری نگرانی کا سامنا ہے اور پاکستان دونوں محاذوں پر کام کر رہا ہے۔ایف اے ٹی ایف کے پہلے ایکشن پلان کا ہدف دہشت گردوں کی مالی اعانت کو روکنا تھا جبکہ نئے دیے گئے ایکشن پلان میں توجہ منی لانڈرنگ کے تدارک پر ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے سربراہ نے جون کے مہینے میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان پر زور دیا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی طرف سے دیے گئے دونوں ایکش پلان پر جلد از جلد عمل در آمد کیا جائے۔خیال رہے کہ جون کے مہینے کے رپورٹ میں انسداد دہشت گردی کے ایکشن پلان کے نکتے کے علاوہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے ذیلی ادارے ایشیا پیسیفک گروپ کے باہمی جائزے میں بھی 40 سفارشات پر عمل کرنا تھا جس میں زیادہ تر کا تعلق منی لانڈرنگ سے تھا۔اس حوالے سے پاکستان کو 6 نکاتی نیا ایکشن پلان دیا گیا تھا۔ پلان کے مطابق پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی خامیوں کو دور کرنا تھا۔ اور کہا گیا تھا کہ
منی لاندڑنگ کے قوانین میں ترمیم کرکے بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیا جائے۔ ثابت کیا جائے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے نامزد افرادکے خلاف بین الاقوامی تعاون لیا جا رہا ہے۔ ثابت کیا جائے کہ ملک میں غیر مالیاتی کاروبار اور پروفیشنل افراد جیسے ریئل سٹیٹ ایجنٹس، جوہرات کے ڈیلرز، وکلا، اکانٹنٹس اور دوسرے پیشہ ور افراد کے حوالے سے لاحق خطرات کا جائزہ لینے کے لیے ایسے افراد کی نگرانی اور ان کے خلاف ایکشن کا طریق کار موجود ہے۔ بے نامی جائیدادوں وغیرہ کے خاتمے کے لیے ایسے افراد کے خلاف کارروائی کا نظام وضع کیا جائے۔ منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیقات ان کے اثاثے ضبط کرنے اور سزائیں دینے کے عمل میں دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔ غیر مالیاتی کاروبار اور پروفیشنل افراد کی نگرانی کرتے ہوئے یقینی بنایا جائے کہ وہ ایٹمی مواد کے پھیلا کو روکنے کے حوالے سے قواعد پر عمل کر رہے ہیں اور جو ایسا نہ کریں ان کے خلاف پابندیاں لگائی جائیں۔یاد رہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو جون 2018 میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا تھا۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک عالمی ادارہ ہے، جس کا قیام 1989 میں جی ایٹ سمٹ کی جانب سے پیرس میں عمل میں آیا، جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کی روک تھام تھا۔ تاہم 2011 میں اس کے مینڈیٹ میں اضافہ کرتے ہوئے اس کے مقاصد بڑھا دیے گئے۔ ان مقاصد میں بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھنے اور اس حوالے سے مناسب قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات طے کرنا تھا۔ ادارے کے کل 38 ارکان میں امریکا، برطانیہ، چین اور بھارت بھی شامل ہیں جبکہ پاکستان اس کا رکن نہیں۔
