جب سے اردو زبان ہے تب سے اُردو شاعری ہے۔ جو رنگ ڈھنگ، لب ولہجہ اردو اختیار کرتی چلی گئی ہے وہی انداز دل ربائی شاعری میں ظاہر ہوتے گئے ۔ اردو شاعری کی صورت گرمی ولی دکنی سے نظر آتی ہے۔ اردو شاعری جب ارتقائی منازل طے کر کے دلی کے دور آباد پر دستک دینے لگی تو ولی دکنی نے اسے مرد چشم قبول کیا اور حسن محبوب کو حقیقت ازل سمجھ کر محبوب کے سراپا کو حسن سے تعبیر کیا۔ تشکیل اخطار اردو شاعری کا مزاج بن گیا۔ اس سے قطع نظر کہ حسن حقیقت حقیقی ہے یا نہیں شعرا نے اسے حقیقت سے تعبیر کیا۔ حسن کے انداز سمجھائے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعری کی بنیاد ہی حسن ازلی ہے لیکن ! نسان کے ارتقائی مفر نے اس کے خاطر مکتوب میں واضح تبدیلیاں کر دیں جن کے اثرات شاعری میں مرتب ہوئے یوں شاعری غالب آگئی۔ جس نے نظم کے دور قالب کو مبدل کر ڈالا۔ میر تقی میر نے اپنے دور میں شاعری کو ایک خاص رنگ عطا کیا لیکن غالب نے اساسی حقیقت کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ کلام غالب پر غور و خوض کا زمانہ آیا تو معلوم ہوا کہ غالب نے شاعری کو ایک نئے انداز سے روشناس کروایا۔
علامہ ظفری ترندی کہتے ہیں: ظفراز کے پہنچا کوئی آشیاں تک کسی کی نظر رک گئی آسماں تک ہے پروز غالب مگر لامکاں تک بحسن معنی ذوق و طالب بجا ہے کہ غالب اللہ کل غالب
غالب کائنات کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور ہر قسم کی پابندیوں سے بالا تر ہو کر روز مخلوقات کی تمہید کی دعوت دیتا ہے۔ غالب لاثانی بن کر منصہ شہود پر آیا لیکن اس کے یہ کے یہ معنی نہیں کہ اس کے بعد شاعری کا باب ختم ہو گیا۔ اگر چہ اقبال نے غالب کا انداز بیان اور افکار کو اختیار نہیں کیا لیکن اقبال نے جن افکار کو جلا بخشی وہ اقبال کا ہی خاصا ہے۔ اقبال ایک دیدہ ور کے طور پر دنیائے ادب پر درخشندہ و تابندہ ہے۔ ایسا معلوم ہونے لگا کہ میر، غالب اور اقبال کے بعد شاعری کرنے والا کوئی نابغہ روز گار نہیں ہوگا۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ اچانک سرخ سویر نمودار ہونے لگا اور اس سرخی میں ارباب دانش کو اپنی جانب مبذول کرنے لگا۔ پاکستانی کے وجود میں آنے کے بعد پہلا عظیم شاعر فیض احمد فیض زمانے کی نظروں کو خیرہ کرنے لگا۔ بنیادی طور پر فیض کا پیغام محبت کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن محبت کے بے شمار پہلو ہیں ۔ فیض کا پیغام، فلسفہ حیات، افکار، شعار نویت ان کی شخصیت کے عکاس ہیں۔ اس لیے وہ ترقی پسند ادب کو تحریک سے وابستہ ہو گئے۔
“ترقی پسند ادب کا یہ پہلو قابل توجہ اور قابل تحسین ہے کہ اس میں اس پر زور دیا
گیا کہ انسان عظیم ہے خدایا
“حیات انسانی کی اجتماعی جدو جہد کا ادراک اور اس جدوجہد میں حسب توفیق
شرکت زندگی کا ہی تقاضا نہیں فن کا بھی تقاضا ہے۔ فن اس زندگی کا ایک جزو اور
فنی جدوجہد اسی جدو جہد کا ایک پہلو ہے۔“ پاکستان میں ہر شخص مفکر، نقاد مصلح اور واعظ ہے۔ جب فیض نے اپنے افکار کو اپنے اشعار میں اجاگر کیا تو نام نہاد مصلحین نے کافر، ملحد ، دہریہ، غدار سازشی وری دریخت وغیرہ کے الفاظ سے یاد کیا۔ لیکن ان مصلحین کی تمام تر کوششوں کے باوجود فیض کا ڈکشن اپنے پنجے گاڑھ چکا تھاور فیض کے افکار کو بہ کو پھیل گئے کوئی مخالفت فیض کے مقام کو کم نہ کرسکی۔ فیض کے افکار کے بر ملا تنقید نے انہیں کندن بنا دیا۔ فیض ایک نظریاتی شاعر تھے جب تک نظریہ قائم رہے گا فیض ملی دنیائے ادب میں موجود رہے گا۔ اگر چہ فیض ایک مخصوص نظریہ کے حامل تھے لیکن وہ عالمی تناظر میں سوچتے اور ردعمل ظاہر کرتے تھے۔
جب امن، محبت، آزادی، خوشحالی کی بات کی تو وہ ایک مخصوص طبقہ یا خطہ تک محدود نہیں تھی۔ وہ معاشرے کو
استحصال سے پاک دیکھنے کے متمنی تھے۔ ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:
فیض احمد فیض نے روس کے بارے میں جذباتی انداز اپنایا لیکن جب وہاں کچھ
عرصہ قیام کا موقع ملا تو والیلہ پن ختم ہو گیا۔” فیض نے امن، محبت ، عوام، آزادی اور استحصال سے پاک معاشرے کی بات کی اور روزگار بن گیا۔ فیض کا کلام سامعین، قارئین، ناقدین کی توجہ کا مرکز بنا۔ محققین نے تحقیقی مقالات رقم کیے۔ نقادوں نے تنقید کے ذریعہ شاعری کے مختلف پہلو اجاگر کیے۔ نقشہ الادب نے فیض کو ایک بلند پایہ شاعر تسلیم کر کے اہل نظر کے لیے تحفہ بنا دیا۔ مختلف مضامین جابجا بکھرے پڑے ہیں اور دعوت فکر دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر حسین اور ڈاکٹر طاہر تونسوی نے اردو شاعری کا صدر دروازہ کے عنوان سے فیض کے بارے میں مضامین و مقالات کو مرتب کر کے شائع کرایا۔ اس کتاب میں ۲۵ مضامین و مقالات ہیں۔ ڈاکٹر محمد شہباز عارف اور مظہر حیات نے ولی زبان انگریزی اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کا مضمون ” کیا آج فیض کی ضرورت تھی ؟ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ کوئی شخص یا کوئی شے دنیا کے لیے ناگزیر نہیں ہے۔ کائنات کے مظاہر میں بقا کا سائیکل چلتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم احمد نے فیض کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس فن میں پیدا ہونے والے سوالات کو فیض کی کیوں ضرورت ہے؟ کیا ضرورت ہے؟ کسے ضروت ہے؟ کب سے ضرورت ہے؟ کب تک ضرورت ہے؟ اس مضمون کے دائرے میں نہیں۔ ان سوالات کا زیر بحث لایا گیا اور نہ ہی برہان قاطع قائم کی گئی۔ ڈاکٹر سلیم نے صرف ایک پہلو اور ضرورت کو موضوع سخن بنایا ہے اور چابک دستی سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ فیض آج کی
ضرورت ہے۔
وہ لکھتے ہیں:
و فیض تاریخ کے عادی تصور کے قائل تھے کہ سوشلزم کی اساس اسی پر استوار
ہے۔ اسی لیے نثر ہو یا شاعری انہوں نے اپنا موقف علمی مصروفیت کے ساتھ
پیش کیا۔” ڈاکٹر سلیم اختر نے فیض کی ضرورت اور اہمیت کو یوں اجاگر کیا۔ فیض کا نظریہ ترقی پسندی سے ہم آہنگ نظر آتا ہے اس سے ان کی سوچ بنیاد ترقی پسندی سے وابستہ احساسات ہیں۔ یہ ان کی تخلیقی شخصیت کی تشکیل میں اساسی کردار کے حامل ہیں۔ نظریاتی شاعر اپنے نظریہ کو اپنی تخلیق کی اساس قرار دے کر فن پارے پیش کرتا ہے۔ نظریہ کے بغیر وہ معلق محسوس کرتا ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:
اس سے بیشتر صورتوں میں نظر یہ جبر کا روپ بھی دھار سکتا ہے۔ تب نظر یہ تشدد کے مترادف قرار پاتا ہے اور انتہا پسندی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔“ فیض کو ایک نظریہ کے حامل تھے ۔ لیکن ترقی پسند ادب کی تعریف سے صرف ترقی پسند ہونا مراد نہیں ہے۔ بلکہ ترقی پسند ادب ہے حسن و عشق اور مے و جام کا بیان خارج از امکان نہیں ہوتا۔ ہر وہ چیز جو رنگین کا باعث ہو حسن کی نماز بن کر
ادب کا حصہ بن سکتی ہے۔
فیض سوشلسٹ ہونے کے باوجود جمالیان اقدار کا فراموش نہیں کرتے۔ عالمی تناظر میں سوچنا ان کی شاعری کی اہم خصوصیت ہے۔ ان محبت اور دنیا میں استحصال سے پاک معاشرے کا وجود ان کی شاعری کا جز ولا ینفک ہے۔ فیض کی شاعری کے تناظر میں ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں: فیض سوشلسٹ تو تھے مگر تنگ نظر نہ تھے نظر یہ ان کے لیے اہم تو تھا لیکن انہوں نے اسے نہ بنایا اور نہ ہی اندھے کی لاٹھی ۔ اس لیے انتہا پسند دانشوروں کے
در میان فیض اعتدال اور سلائی کا جزیرہ تھے ۔” فیض امن عالم کا داعی تھے فلسطین اور بیروت کے بارے میں درد کنٹرول رکھتے تھے۔ فلسطین کے حوالے سے لکھتے ہیں:
جس زمین پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم کہلاتا ہے وہاں ارض فلسطین کا علم تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطین بریاد میرے زخموں نے کئے کتنے فلسطین آباد
پیروت کے بارے میں لکھتے ہیں:
یہ شہر ازل سے قائم ہے یہ شہر ابد تک قائم ہے
بیروت نگار بزم جہاں
بیروت بدیل باغ جہاں
اس سوال کا جواب کہ فیض کی آج ضرورت ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے یوں دیا۔ لکھتے ہیں: ” آج جب کہ اقبال کا پاکستان فیض احمد فیض کے زمانہ کے بیروت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ مذہبی عدم رواداری اور اس کے پیدا کر دی تشد د نے اجتماعی ہذیان کی صورت اختیار کر لی ہے۔ وقت کی تاریک سررنگ میں اندھیرے کا بے سمت سفر جاری ہے ۔ روشنی کی توقع کے بغیر تو ایسے میں ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ فیض احمد فیض کی۔ آج کا دور اپنے فیض کی تلاش میں ہے۔ امن بھائی چارہ، رواداری آزادی اور زندگی کے حسن کا درس دے گئے ۔“
ڈاکٹر سلیم اختر نے فیض کی اہمیت بیان کی ہے کہ فیض دور حاضر میں خصوصی اہمیت کا حامل شاعر ہے۔ دنیا جب افراتفری، فتنه و فساد، فرقہ واریت اور دیگر مسائل کا شکار ہے ایسے عالم میں پیغام محبت کو عام کر کے دنیا کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے فیض کا پیغام بنی نوع انسان کے لیے ایک نجات دہندہ کا کردار ادا کر سکتا ہے اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔ عام طور پر ناقدین یہ خیال کرتے ہیں فیض کی شاعری نظر یا تک سے تابع ہے۔ رومان بھی کہیں کہیں نظر آتا ہے۔ لیکن دیگر موضوعات کا فقدان ہے۔ فیض نے کائنات کے اسرار سے پردہ اٹھانے کی سعی نہیں کی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فیض رموز مخلوقات سے لاتعلق ہو کر انسان کو اپنے نظریہ کے تابع خیال کرتے ہیں۔ پروفیسر سحر انصاری نے فیض کی شاعری اور بدلتا ہوا عالمی تناظر میں اس خیال کا اظہار کیا۔
ہم فیض کی مجموعی، فکر ان کی کل نظم و نثر کا مطالعہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ
موضوعات کا تنوع بھی ان کا شاعری کا ایک اہم وصف ہے۔” فیض کا یہ کمال ہے کہ وہ اپنے نظریہ کے اظہار میں موضوع کو خشک نہیں ہونے دیتے اور اپنے اظہار کو جمالیاتی اسلوب میں ڈھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جمالیات کا انداز فیض کی مقبولیت کا باعث ہے لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان کی شاعری میں قومی اور بین الاقوامی مسائل کا ذکر تنوع اور معنویت پیدا کرتا ہے۔ فیض کی شاعری وقت کے ساتھ کروٹیں بدلتی نظر آتی ہے۔ فیض نے ذاتی واقعات قلم بند کیے تو جوانی کے حالات کی طرف اشارہ کیا۔ پروفیسر سحر انصاری کا یہ خیال کہ فیض کی شاعری بدلتے ہوئے عالمی تناظر کے ساتھ ڈھلتی ہے اور اس میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اہم ہے۔
پروفیسر سحر انصاری کا جملہ مضمون اس موضوع کے گرد گھومتا ہے۔ مشاہدات عالم اور ماحول میں موجود عناصر فیض کی تخلیقی مزاح کا جزو ہیں۔ مغربی شعرا اور ادبا کی تحریریں مختلف زبانوں کے ادب کا مطالعہ فیض کے تخلیقی مزاج میں شامل ہے۔ اس پس منظر میں یہ کہنا بالکل درست ہے کہ فیض نے زمینی حقائق کو محسوسات کی سطح پر اس طرح پیش کیا کہ عالمی تناظر میں ہونے والے ان تغیرات کو فیض کی شاعری میں دیکھا جا سکتا ہے جو وقافو قا رونما ہوتے رہے ہیں۔” پروفیسر سحر انصاری واقعات کا فیض پر اثر تائب کرنے کے لیے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان نے فیض کے ذہن پر جو اثرات مرتب کیے کہ فیض نے اگست ۱۹۴۷ء ہی میں ایک نظم حج آزادی کے عنوان سے لکھی جس میں اپنے احساسات اور حیرت کو بیان کیا گیا ہے۔
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیں سحر وہ انتظار تھا جس کا ، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر چلے تھے یاد کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل کہیں تو ہو گا شب مست موج کا ساحل کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل
نجات دہندہ دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
قیام پاکستان کے وقت جو قتل و غارت گری دیکھنے میں آئی اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ ہجرت کا سفر کرنے والوں کے قافلے جس کسی مرسی کا اظہار کرتے تھے انسان دیکھ کر خون کے آنسو روتا تھا۔ بے درے گھر بے دریا ہے
یا مردمددگار قافلے کوئی پرسان حال نہ تھا۔ قیام پاکستان کے واقعات کا نقشہ سامنے ہو تو ذہن یہی آزادی ہے۔ بعد میں پیدا ہونے والے حالات نے آزادی کی نعمت کا احساس دیوار لیکن فوری رد عمل فیض نے قبول کیا اور اسے بیان کیا۔ اسی لیے پروفیسر سحر انصاری کہتے ہیں کہ فیض کی شاعری بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں بدلتی ہے۔ جب تقسیم ہند کے اثرات محو ہوئے گئے اور نئے ملک کی تشکیل تعمیر نو کا مرحلہ آیا اور آزاد فضا میں سانس لینے کی اہمیت آشکار ہوئی تو فیض کا ذہن بدل گیا۔ یہی کنار فلک کا یہ تریں گوشہ
یہی ہے مطلع ماہ تمام کہتے ہیں
پروفیسر سحر انصاری کا مضمون اس او پر دلالت کرتا ہے کہ فیض کی شاعری میں ٹھہراؤ نہیں ہے۔ بلکہ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔ جنگ عظیم قیام پاکستان، عربی اسرائیل جنگ اور بنگلہ دیش کا قیام ایسے واقعات ہیں جن کا رج عمل فیض کی شاعری میں نمایاں ہے۔ فیض نے خود بھی کہا تھا: ” مجھے کہنا صرف یہ تھا کہ حیات انسانی کی اجتماعی جدوجہد کا ادراک اور اس
جدو جہد میں حسب توش نہ کر زندگی کا تقاضا خیال نہیں فن کا بھی تقاضا ہے۔“ پروفیسر سحر انصاری کے مضمون سے یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہے کہ فیض کی شاعری فیض کے خاطر کمکتون پر رونما ہونے والے واقوعات کا رو جمیل ہے۔ جس طرح واقعات بدلتے گئے عالمی منظر نامہ تبدیل ہوتا گیا۔ فیض کی شاعری اس سے ہم آہنگ ہوتی گئی لیکن بنیادی طور پر ان کا نظریہ تبدیل نہ ہوا اور ان کے افکار، خیالات، احساسات، جذبات، تخیلات کو اساس فراہم کرتا ہے۔ فیض نے جو موضوع بھی پیش کیا اس کی اساس ان کے نظریہ پر ہونے کے باوجود اقوام عالم کے واقعات سے باخبر ہو کر اثر قبول کیا اور شاعرانہ انداز سے پیش آئے۔ پروفیسر سحر انصاری کا مضمون اہم ہے اور دعوت فکر دیتا ہے کہ فیض کے کلام کو اس موضوع صورت حال کے تناظر میں پر کھا جائے۔ جس طرح واقعات عالم بدلتے گئے زمانہ کروٹیں بدلتا رہا۔ فیض کی شاعری کا مزاج بھی مبدل ہوتا گیا۔ اس موضوع کو برنگ دگر ڈاکٹر علی احمد فاطمی نے اپنے مضمون ” فیض۔۔۔ صوفی ازم سے مارکسزم تک میں بیان کیا ہے۔ یہ مضمون خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ فیض کے افکار کا سفر ایک تاریخی دستاویز کے طور پر پیش کیا۔ کن کن ادوار سے کن کن مراحل سے فیض کے فکر نے سفر کیا اہم ہے۔ یہ مضمون اس سفر کو بطریق احسن بیان کرتا ہے۔ اس تاریخی مضمون کی رو سے ہم اس نتیجہ پر بہ آسانی پہنچ پاتے ہیں کہ فیض جس کا خاندان صوفی تھا کن مراحل سے گزرا اور ان کا فکر مارکسزم پر منتج ہوا۔
ڈاکٹر علی فاطمی لکھتے ہیں :
ان کے گھر میں ایک مخصوص قس کا مذہبی ماحول تھا جس کے ڈانڈے تصوف سے ملتے تھے۔ روایت ہے کہ فیض نے بچپن میں کچھ قرآن حفظ کر لیا تھا۔“ فیض کا گھریلو ماحول نہیں تھا۔ خواتین پردہ نشین تھیں۔ فیض فجر کی نماز پڑھنے اپنے والد کے ساتھ مسجد جایا کرتے تھے۔ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے قرآن شریف پڑھا۔ علامہ اقبال کی زیر صدارت انجمن اسلامیہ سیالکوٹ کے سالانہ اجلاس میں تلاوت کا شرف بچپن میں حاصل کیا۔ فیض کے گھر کا ماحول روایتی تھا۔
ایوب مرزا لکھتے ہیں:
فیض ایک انتہائی قدامت پسند گھر کے ماحول میں پروان چڑھا رہا تھا۔ خواتین
میں پردہ اور برقعہ کا استعمال عام اور لازم تھا۔
مذہبی اور دینی ماحول میں پرورش پانے والے بچے کے افکار و نظریات میں تبدیل کا سفر بتاتا ہے کہ جس طرح ماحول بدلتا گیا نظریات بدلتے گئے ۔ مذہبی خانوادہ کے باوجود دین راسخ نہ ہو سکا۔ فیض کے ماحول اور مزاج ذہن بنانے میں مصرو تھے۔ زیر نظر مضمون سے یہ امر عیاں ہوتا ہے کہ فیض واقعات کا فوری اثر قبول کرتے تھے۔ دنیا میں بے یارومددگار، کمزورو نا تواں کسانوں کی حالت زار تھی تو دوسری طرف امرا کے محلات اور عیش و نشاط کی زندگی یہ صورت احوال زمانہ طالب علمی میں دے کر اس کے اثرات قبول کیے۔ مقامی ہنگاموں اور نفرتوں کی بدولت انقلاب روس کی مختلف جہات منصہ شہود پر آرہی تھیں۔ اس دور میں فیض اپنی تعلیم مکمل کر چکے تھے اور تلاش روزگار میں لگے ہوئے تھے ۔ بے روزگار کسانوں اور مزدوروں کی بھوک اور افلاس، بے بسی اور بے کسی کو فیض نے نہ صرف دیکھا بلکہ دل سے محسوس کیا۔ اس دوران فیض کو محمود الظفر نے کمیونسٹ منشور کی کتاب حوالے کر دی۔ فیض کہتے ہیں: میں نے ایک ہی نشست میں یہ کتاب پڑھ ڈالی بلکہ دو تین بار پڑھی۔ بلکہ دو تین بار پڑھی۔ انسان اور فطرت فرد اور معاشرہ، معاشرہ اور طبقات، طبقے اور ذرائع پیداوار، پیداواری رشتے اور معاشرے کا ارتقا انسانوں کی دنیا ہیچ در پیچ اور تبه در تہہ رشتے ناتے قدریں عقیدے فکر و عمل وغیرہ کے بارے میں یوں محسوس ہوا کہ کسی نے اس پورے خزینہ اسرار کی کنجی تھما دی ہے یوں سوشلزم اور مارکسزم
سے اپنی دلچپسی کی ابتدا ہوئی ۔“ ایک مرحلہ ایسا آگیا تھا کہ مذہب اور سوشلزم کو بیک وقت قبول کر لیا گیا مذہب کو چھوڑ نا گوارا نہیں اور مارکسزم کو قبول کرنے کی خواہش اس کش مکش میں فیض نے اشترا کی لٹریچر کا مطالعہ کیا اور جھکاؤ بڑھتا گیا اور فیض کا یہ نظر یہ تحکم ہو گیا کہ صرف ایک منصفانہ نظام کے تحت ہی عالمی ثقافت معرض وجود میں آ سکتی ہو۔ زیر نظر مضمون فیض کی سوانح حیات ہی نہیں بلکہ ان کے ذہن میں وقوع پذیر ہونے والے تغیرات کی شہادت ہے۔ ڈاکٹر علی احمد فاطمی نے بڑے مدلل انداز میں مصنفین کے رخ موڑنے کی تاریخ بیان کی ہے۔ اس لیے یہ مضمون بذا ئیہ تاریخ دستاویز کی حیثیت کا حامل ہے۔ جس جس طریقے سے فیض زندگی کا سفر طے کرتے رہے۔ اُس طریقے سے ان کے افکار مبدل ہوتے گئے۔ مختلف واقعات و سانحات نے جو اثرات مرتب کیے وہ فیض کے فکری سفر کے آئینہ دار ہیں۔
قیام پاکستان سے قبل میر تقی میر میں غالب اور اقبال اپنا لوہا منوا چکے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد فیض ایک عظیم شاعر کے طور پر جانے گئے۔ اسے قطع نظر کے شاعری اور شعر دو جداگانہ صورتوں کے نام ہے۔ یہ لمحے کہ فیض پاکستانی کا عظیم شاعر ہے۔ وہ دنیائے ادب کا ایک ایسا درخشندہ ستارہ ہیں جن کی روشنی وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ تیز تر ہو رہی ہے۔ ان کی شہرت اور مقبولیت کا وہ عالم ہے ان کا کلام دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو کر شرف قبولیت حاصل کر چکا ہے۔ فیض کی شاعری کی اساس ان کا نظریہ ہے اور نظریہ سے وابستہ رہنے کے باوجود احساس کا اظہار بطر میں احسن کیا ہے۔ ڈاکٹر اسلم انصاری نے فیض کی شاعری کے چند پہلو بیان کیے ہیں:
جدید تنقیدی دیدہ ریزی سے کسی شاعر کے فن کی فکری حیات کا مطالعہ کرتی اور
انہیں کی روشنی میں سے اس کے مقام کو متعین کرتی ہے۔” دور حاضر سے نظری تحریکات کی بدولت شاعری میں فکری اہمیت دی آتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے بعض اوقات شاعر کے فنی خصوصیات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ شعر خیال اور فن سے مرکب محض خیال شعر کے مقام کو متعین نہیں کرتا بلکہ فقی خصوصیات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جن کی وجہ سے شاعری کا امتیاز اور جواز برقرار رہتا ہے کو زیر نظر لایا جانا ضروری ہے۔ ڈاکٹر اسلم انصاری نے شعری تمثال کو فیض کی شاعری کا سب سے پرکشش پہلو قرار دیا ہے۔ فیض کے ہاں شعری تماثیل یقینی طور پر بین اور واضح ہے۔ مرکب ہونے کی صورت میں بھی جمالیاتی وحدت موجود رہتی ہے۔ مجموعی طور پر ان تماثیل کا تاثر گہرا اور دل کو چھو لینے والا ہوتا ہے۔
تمثالی کارکا مطمع نظر تمثیل کاری ہوتا ہے اور ذہن میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ اُس نے فن کا مظاہرہ بھی کرتا ہے۔