تحریر . عرفان طالب

عنوان ..عصر حاضر کے تقاضے اور طلباء
پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لے کر آج تک مختلف مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان سب مسائل کے حل مختلف ادوار میں تجویز کئے گئے۔ لیکن ابھی بھی وہی مسائل اور مشکلات ہمیں درپیش ہیں۔ ہر آنے والی حکومت مسائل کے حل کی اپنے تئیں کوشش کرتی ہے ۔ لیکن مسائل ہیں کہ کسی طرح ختم نہیں ہوتے۔
خیال واثق ہےکہ ہم نے مشکلات کی نشان دہی کے بعد ان کی بنیاد کو دریافت نہیں کیا اور سطحی قسم کے حل پیش کیے گیے جو کسی بھی صورت پاکستان کی ترقی میں معاون ٖثابت نہیں ہوئے اور ہمارے داخلی، خارجی، معاشی ،دفاعی اور تعلیمی مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہا۔ دیکھنا پڑے گا کہ ایسا کیا کیا جائے تا کہ ان مسائل سے چھٹکارا پایا جا سکے۔
ہماری مشکلات کی جڑ ہمارے فرسودہ نظام تعلیم میں مضمر ہے۔ تعلیمی نظام کی ترجیح نہ علم کا حصول ہے نہ ملازمتوں کا حصول۔ ہمارے طلبا طوطے تو بن گئے لیکن تعلیم یافتہ نہ بن سکے۔ ایک پرانی کہاوت ہے۔ آموں کے باغ کی طوطوں سےحفاظت کے لئے مالی درختوں کے درمیان ایک رسی باندھ دیتے تھے۔ طوطے عموماً اس رسی پر الٹے لٹک جاتے۔ مالی ان کو آسانی سے پکڑ لیتے اور بازار میں بیچ دیتے ۔ یوں ان کے آم بھی محفوظ ہو جاتے اور طوطے بیچ کر اچھی خاصی رقم بھی کما لیتے۔ ایک رحمدل استاد نے طوطوں پہ اس ظلم کے خلاف حکمت عملی بنائی ۔ سب طوطوں کو اکھٹا کیا اور انہیں یہ سبق یاد کروایا ” ہم پر دار جانور ہیں اگر کسی نے ہمیں پکڑنے کی کوشش کی تو ہم پر پھٹرپھٹرا کر اڑ جائیں گے” اگلے دن سب طوطے رسیوں پر الٹے لٹکے ہوئے تھے اور گانا گا رہے تھے۔” ہم پردار جانور ہیں اگر کسی نے پکڑنے کی کوشش کی تو ہم پر پھٹرپھٹرا کر اڑ جائیں گے” اور مالی ایک ایک کو پکڑ کر بوری میں ڈال رہا تھا۔
ہمارا المیہ ہے کہ ہم نے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو طلبا میں پیدا ہی نہیں ہونے دیا۔ صرف ان کو ہر قسم کے علم کا حافظ بنا دیا جاتا ہے۔ انہیں سرکس کا تربیت یافتہ شیر تو بنا دیا جاتا ہے لیکن تعلیم یافتہ نہیں۔ پروفیشنل کالجز اور یونیورسیٹیز انہی طوطوں کو پالش کر کے نکالتی ہیں۔ وہ جب بڑے ہو کر ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں تو مسائل کا تجزیہ کرنا، مختلف حل تجویز کرنا، بہترین حل تلاش کرنا، معروضی حالات کو مد نظر رکھ کر ان کو نافذ کرنا، نفاذ کے بعد ان کی تجزیاتی اورمرکباتی تشخیص کرنا اور ان کو بہتر سے بہترین کرنا ان کے بس میں نہیں ہوتا۔ ان کے پاس واضع حکمت عملی یا قومی مقصد اور بیانیہ نہیں ہوتا۔ یوں ملک کا پیسہ اور وقت ضائع ہوتا ہے اور مسائل کی دلدل مزیدگہری ہو جاتی ہے۔
آپ میں سے بہت سارے لوگوں کو اسی کی دہائی یاد ہو گی جب “تعلیم بالغاں” کی تحریک چلائی گئی تھی اس کے لیئے مغربی ممالک سے کافی فنڈز امداد کی صورت میں مہیا کئے گئے تھے۔ راقم کا نظریہ تھا اور اس کا برملا اظہار علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایک ورکشاپ کے دوران کیا تھا کہ یہ امداد پرائمری تعلیم پر خرچ کی جائے اور بوڑھے لوگوں کو اپنا نام لکھنا سکھانے کے بجائے سکول جانے کی عمر والے بچوں پر خرچ کی جائے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ امداد جس مقصد کے لئے دی گئی تھی اسی کے لئے استعمال ہو سکتی تھی۔ یوں چھوٹے بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد سکول نہ جا سکی۔ نتیجہ اس کا ظاہر ہے۔ اس وقت سوا دو کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں اور ان کی تعلیم کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے۔ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔ حل بہت ہی سادہ ہے۔ جو امداد یا قرض تعلیم کی مد میں دیا جاتا ہے اسے صرف اور صرف یونیورسل ایجوکیشن کے لئے استعمال کیا جائے۔ کسی قسم کی شرط امداد لیتے وقت قبول نہ کی جائے۔ آجکل بھی مختلف ممالک سے تعلیم کے نام پررقوم آتی ہیں جو مختلف پروگرامز میں استعمال ہو رہی ہیں ۔ ان رقوم کو پرائمری اور یونیورسل ایجوکیشن کے لئیے استعمال کیا جائے تو 100 فیصد شرح خواندگی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تعلیمی اداروں میں ایسے طلبا اور طالبات تیار کریں جو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ تو ہو گا۔آئیے ذرا غور کریں کہ ایسی کیا تبدیلی لائی جائے جو کم سے کم وقت میں نافذ بھی ہو جائے اور موجودہ نظام کے ساتھ زیادہ چھیڑ چھاڑ بھی نہ ہو۔آجکل ایس ایل او کا ذکر ہر تعلیمی بحث مباحثہ میں ہوتا ہے۔ امتحانی بورڈز اس کو لاگو کرنے کے لئے پیپرز بنانے کو تیار ہیں لیکن ہمارے اساتذہ اور طلبا اس کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ پہلے قدم کے طور پر سال میں ایک امتحان لینے کا مروجہ طریقہ تبدیل کیا جائے۔ اور سال میں دو امتحان لئے جائیں ۔ اور طلبا سال میں دو مرتبہ دو یا تین مضامین کا امتحان دے سکیں یوں دو سالوں میں میٹرک اور اگلے دو سالوں میں ایف اے/ایف ایس سی کا امتحان پاس کریں۔ اس طرح وہ اچھے طریقے سے سمجھ کر امتحان دیں گے اورنقل کا رحجان بھی کم ہو گا ۔ دوسرا قدم ایٹا /این ٹی ایس اور پروفیشنل کالجز اور یونیورسٹیز کے داخلے کے امتحانات سال میں ہر چار ماہ بعد منعقد کئے جائیں۔ طلبا اور طالبات کسی بھی وقت بہتر تیاری سے ایف اے/ایف ایس سی کا نتیجہ آنے سے پہلےبھی یہ امتحان پاس کر سکتے ہیں۔ اگلے سال سے ہر پرچہ 30 فیصد تک ایس ایل او بنیاد پر ہو۔ یوں ہر سال بتدریج 40 فیصد، 50 فیصد کر کے 100 فیصد پیپر ایس ایل او کی بنیاد پر بنایا جائیے۔ اگلے پانچ سالوں میں اساتذہ کو بھی ان خطوط پر تربیت دی جا سکتی ہے۔ اساتذہ کی تربیت تعلیمی اداروں کے سربراہان کی ذمہ داری ہونی چاہئے اور ان کی تربیت پر آنے والے حکومتی اخراجات کو سکولوں کی تعداد بڑھانےاور ان میں بہتر سہولتیں دینے پر خرچ کیا جائے۔ نجی تعلیمی ادارے چار دہائیوں سے تعلیمی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور 31 فیصد تعلیمی ادارے نجی سیکٹر میں کام کر رہے ہیں جبکہ 69 فیصد حکومتی ادارے ہیں۔ نجی اداروں کی حوصلہ افزائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پروفیشنل کالجز اور یونیورسیٹیز سال میں دو دفعہ میرٹ کی بنیاد (این ٹی ایس ، ایس اے ٹی، جی ایم اے ٹی اور جی اے ٹی پاس کرنے) پر داخلے کریں یوں طلبا کا سال ضائع ہونے سے بچ جائے گا اور وہ ملکی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکیں گے۔ مندرجہ بالا اقدامات سے پورا سال تعلیمی سرگرمیاں جاری رہیں گی۔
بچوں میں زبانی و غیر زبانی استدلال کو پروان چڑھایا جائے ۔ جب بچے کسی بھی چیز کو بغیر استدلال کے قبول نہیں کریں گے تو ان میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو گا۔ ہمیں آموں کے باغ والے طوطے نہیں چاہیں ۔ہمیں چاہئیے کہ بورڈ، یونیورسٹیز، آئی ایس ایس بی، سی ایس ایس اور دوسرے مقابلے کے امتحانات کے لئے اوپر سے نیچے کی طرف کام کر کے طلبا کی استعداد بڑھانے کی کوشش کریں۔ اور نئی آنے والی نسل ایسے تیار کی جائے جو محض نعروں کی گونج میں اپنے ہوش و حواس نہ کھو دے بلکہ ان کا ہر فیصلہ سوچ بچار کے ترازو میں تلا ہوا ہو۔ اس طرح جو نسل تیار ہو گی وہ ملکی معاملات ، خارجہ پالیسی، تعلیمی پالیسی، معاشی پالیسی اور دفاعی پالیسی میں بھرپور کردار ادا کر سکے گی۔
عرفان طالب ، پرنسپل ،
پریزنٹ ٹائمز پبلک سکول اینڈ کالج ، ایبٹ آباد۔
Email: [email protected]

اپنا تبصرہ بھیجیں