اسلام آباد ( یو این آئی نیوز): وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر فلاحی مملکت بنانے کیلئے جدوجہد جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے غریبوں کی دیکھ بھال، انصاف کی بالادستی، بلند اخلاقی اقدار، بدعنوانی کی روک تھام اور خاندانی نظام کے تحفظ پر زور دیا ہے، اسلامی اقدار پر عملدرآمد کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، بزدل انسان کبھی لیڈر نہیں بن سکتا، جب تک زندہ ہوں انصاف اور قانون کی بالادستی کیلئے لڑتا رہوں گا، انصاف کے یکساں معیار کو اپنائے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، نوجوانوں کو رحمت للعالمین سکالر شپس دے رہے ہیں، احساس پروگرام کے تحت سوا کروڑ لوگوں کو اگلے ماہ رقم دی جائے گی، پنجاب میں مارچ تک سب شہریوں کو ہیلتھ کارڈ ملیں گے، حکومت نے لوگوں اور دنیا کو حضرت محمد خاتم النبین صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم کی حیات طیبہ اور تعلیمات سے آگاہ کرنے کیلئے رحمت اللعالمین اتھارٹی قائم کی، یہ اتھارٹی دنیا کو اسلامی انقلاب سے روشناس کرائے گی اور سیرت نبوی کے بارے میں نوجوانوں کی رہنمائی کر ے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو قومی رحم للعالمین ۖ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وفاقی وزرا، وزرامملکت، ارکان قومی اسمبلی سمیت اعلی سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جشن عیدمیلاد النبی? کو بھرپور طریقہ سے منانے پر سب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ہماری نوجوان نسل کو اپنے پیارے نبی کی سیرت کے بارے میں معلوم ہونا چاہئے، رسول پاکۖکی زندگی کے بارے میں خصوصی طور پر 5 منٹ کی دستاویزی فلم بنوائی، کانفرنس میں رسول پاک کی سیرت مبارکہ کے بارے میں خصوصی دستاویزی فلم دکھائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ رسول پاکۖ دنیا میں تلوار کے ذریعے نہیں بلکہ اپنی سوچ اور فکر سے انقلاب لائے تھے، ریاست مدینہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر مہذب معاشرے کیلئے مثالی نمونہ بنی، رسول پاک? نے معاشرے میں اچھے برے کی تمیز رکھی اور اخلاقی معیار بلند کیا، ہمارے پیارے نبی ? نے اپنی سیرت مبارکہ کے ذریعے انصاف کا درس دیا، مسلمان اعلی اخلاقیات، ایمانداری اور سچائی کے علمبردار تھے، عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی تھی، قانون سے کوئی بالاتر نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہی قوم قانون کی حکمرانی قائم کر سکتی ہے جو اعلی اخلاق کی حامل ہو، اس ملک کو بنانا ری پبلک کہتے ہیں جہاں قانون نہ ہو، کمزور کو انصاف نہ ملے، بنانا ری پبلک میں جنگل کا قانون ہوتا ہے، بنانا ری پبلک وسائل کی کمی سے نہیں قانون و انصاف کی عدم فراہمی کے باعث بنتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلند اخلاق اور انصاف پسند ممالک نے ترقی کی۔ انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ فلاحی ریاست تھی، اس ریاست نے نچلے طبقہ کی ذمہ داری لی اور ان کو اوپر اٹھایا، جب ریاست لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرتی ہے تو لوگ جڑ جاتے ہیں، انسانیت اور انصاف سے قوم مضبوط ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں قانون کی نہیں طاقت کی حکمرانی تھی، افغانستان اور ہمارے قبائلی علاقوں میں جرگہ کا نظام تھا، اس صورتحال میں ہندوستان پر قبضہ کر لیا جاتا تھا لیکن افغانستان پر قبضہ نہیں کیا جا سکا، قبائلیوں نے برطانوی راج کے خلاف مسلسل جنگ لڑی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ریاست مدینہ نے لوگوں کو انصاف اور بنیادی سہولیات فراہم کیں، وہاں میرٹ کی بالادستی تھی۔ انہوں نے کہا کہ لیڈر کو صادق اور امین ہونا چاہئے، جو ایماندار، سچا اور انصاف پسند نہیں ہوتا اس کی کوئی عزت نہیں ہوتی، صادق اور امین ہونے پر عزت ہوتی ہے، حضرت محمد? ? نے مثالی نمونہ پیش کرکے مسلمانوں میں قائدانہ خصوصیات پیدا کیں، وہ بہادر قیادت تھی، ہر شخص زندگی، ذلت اور رزق جانے کے باعث خوف کھاتا ہے، اسلام نے بتایا کہ زندگی، عزت اور رزق ا? کے ہاتھ میں ہے جس سے ان کا خوف ختم ہو گیا اور کم وقت میں بڑے مسلمان لیڈر پیدا ہوئے جنہوں نے دنیا کی قیادت کی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے خواتین کو ان کے حقوق دیئے، یورپ نے کئی سو سال بعد یہ حقوق خواتین کو دیئے، اسلام میں غلاموں کا معاشرے کا حصہ بنایا گیا، غلام بادشاہ بنے، غلاموں کو ایسا رتبہ دینے کی کوئی اور مثال نہیں ملتی، اسلام نے بزرگوں کا احترام سکھایا، پہلی بار ریاست مدینہ میں پنشن کا نظام شروع کیا گیا، حضرت بابا فرید گنج شکر، نظام الدین اولیائ سمیت دیگر بزرگان دین عاشق رسول تھے، لاکھوں لوگ ان بزرگان دین سے پیار کرتے ہیں، جس نے حضرت محمد?کے اسوہ? حسنہ کی پیروی کی وہ کامیاب ہوا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اسلام کے باعث علم کا انقلاب آیا، مسلمانوں نے سائنس سمیت تمام شعبوں میں رہنمائی کی، بغداد اور قرطبہ علم کے مراکز بن گئے، حضرت محمد ? رحمت للعالمین ہیں، وہ سب انسانوں کیلئے رحمت بن کر آئے، مسلمان تعلیمات نبوی پر عمل کرکے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ برطانیہ میں انسانیت دیکھی، غریبوں کیلئے مفت علاج معالجہ، بچوں کی مفت تعلیم اور عدالت میں قانونی امداد مفت ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ کیس میں جھوٹ بولا گیا، قطری خط آ گیا، پھر کیلبری فونٹ آ گیا، 2007ئ میں کیلبری فونٹ آیا لیکن انہوں نے 2006ئ کا دکھا دیا، یہاں حلف اٹھاکر جھوٹ بولا جاتا ہے، انصاف کرنے کیلئے اخلاقی جرا?ت ہونی چاہئے، بزدل انسان کبھی لیڈر نہیں بن سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا پارلیمانی نظام بھی مغرب جیسا ہے لیکن پارلیمانی جمہوریت اخلاقی بنیادوں پر ہی کامیاب ہو سکتی ہے، یہ چند ممالک کے سوا کہیں کامیاب نہیں ہوئی، وہاں چھانگا مانگا کی سیاست نہیں ہوتی، یہاں سب کو پتہ ہے کہ سینٹ الیکشن میں پیسہ چلتا ہے وہاں ایسا نہیں ہوتا، وہاں کسی پر عوام کے پیسے چوری کا الزام لگ جائے تو اس کا رکن پارلیمنٹ بننا تو دور کی بات وہ میڈیا پر بھی نہیں آ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت محمد? کا? اسوہ? حسنہ ہمارے لئے مثالی نمونہ ہے، ہمیں اور ہمارے نوجوانوں کو اس پر عمل کرنا چاہئے، ا? تعالی کا حکم ہے کہ جو اس پر عمل کرے گا وہ کامیاب ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ قانون کی بالادستی کی جنگ جیتنا سب سے بڑی جنگ ہے، جب تک یہ جنگ نہیں جیتیں گے تب تک ملک میں جمہوریت اور خوشحالی نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانی وطن واپس آ کر سرمایہ کاری کی خواہش رکھتے ہیں لیکن جب وہ وطن واپس آتے ہیں تو ان سے دھوکہ اور فراڈ ہوتا ہے جس کے باعث وہ یہاں قیام نہیں کر سکتے، وہ قانون کی حکمرانی کے عادی ہوتے ہیں، 90 لاکھ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں، اگر 30 سے 40 ہزار پاکستانی وطن واپس آ کر سرمایہ کاری کریں تو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہ پڑے، ان کی پاکستان میں سرمایہ کاری میں ملک کا نظام بڑی رکاوٹ ہے، اس میں بہتری لانے کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک کو خوشحال بنانا ہے تو قانون کی بالادستی اور بلند اخلاقی معیار کو اپنانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جاپان اور جرمنی تباہی کے باوجود 10 سال میں اپنے پاں پر کھڑے ہو گئے، بیروت مشرق وسطی کا پیرس تھا لیکن کرپشن کے باعث تباہ حالی کا شکار ہے۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستان جیسے ممالک سے ہر سال ایک ہزار ارب ڈالر آف شور کمپنیوں میں جاتے ہیں، یہ ایسے ممالک ہیں جہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی، طاقتور پر قانون لاگو نہیں ہوتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ انصاف کا نظام نہیں ہو گا تو خوشحالی نہیں آئے گی، جب لوگوں کو یقین ہو کہ انصاف کا بول بالا ہو گا تو وہ قوم بن کھڑے ہو جاتے ہیں، ہم نے اپنے نوجوانوں کیلئے درست سمت کا تعین کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج سے 50 سال پہلے پاکستان میں خطہ میں ترقی کر رہا تھا لیکن اب یہ نیچے آ گیا، پاکستان کی بنیاد پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ ا?” کے نعرہ پر تھی، علامہ اقبال نے مثالی ریاست کا خواب دیکھا، قرارداد پاکستان کی روح اسلامی فلاحی ریاست تھی۔ انہوں نے کہا کہ ا? تعالی نے پاکستان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، ہمیں اپنی سمت درست رکھنا ہو گی، جس راستے پر 74 سال پہلے چلنا تھا اس سفر کا اب آغاز کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے باعث چیلنجز بڑھ چکے ہیں، بچوں کے پاس موبائل فون ہیں، ہم ان کو معلومات تک رسائی سے نہیں روک سکتے لیکن ان کی تربیت کر سکتے ہیں، ہمیں اپنے بچوں کو نیکی اور برائی کے راستے سے متعلق آگاہی دینی ہے، بچوں میں اپنی ثقافت سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کیلئے کارٹون سیریز شروع کی جائیں گی، نوجوانوں میں غیر جنسی جرائم کا بڑھنا خطرناک ہے، برطانیہ میں غیر اخلاقی فلموں اور فحاشی بڑھنے سے خاندانی نظام پر اثر پڑا، ہمیں اپنے خاندانی نظام کو بہتر بنا کر اس کا تحفظ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 25 سال پہلے ہماری جماعت کا نصب العین اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا، انصاف کے یکساں معیار کو اپنائے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، جب تک زندہ ہوں ملک میں انصاف اور قانون کی بالادستی کیلئے لڑتا رہوں گا، جو ملک میں خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں وہ جو بھی ظلم کریں قانون ان کو نہیں پکڑ سکتا، جب تک ایسے طاقتور قانون کے شکنجے میں نہیں آتے معاشرہ ٹھیک نہیں ہو سکتا، ریاست مدینہ میں معاشرے کو اوپر سے ٹھیک کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کے باعث مہنگائی ہے، اگلے ماہ احساس پروگرام کے تحت سوا کروڑ لوگوں کو پیسے دیں گے، گندم پر سبسڈی دے رہے ہیں، کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت بلاسود قرضے دیں گے، دکانوں، گھروں اور زرعی شعبہ کیلئے آسان شرائط پر قرضے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں تمام شہریوں کو ہیلتھ کارڈ دے دیئے گئے ہیں جبکہ پنجاب میں مارچ تک سب شہریوں کو ہیلتھ کارڈ دے دیں گے اور ہر خاندان 10 لاکھ تک کسی بھی ہسپتال میں اپنا علاج کرا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے لوگوں اور دنیا کو حضرت محمد خاتم النبین ?? کی حیات طیبہ اور تعلیمات سے آگاہ کرنے کیلئے رحمت اللعالمین اتھارٹی قائم کی، یہ اتھارٹی دنیا کو اسلامی انقلاب سے روشناس کرائے گی اور سیرت نبوی کے بارے میں نوجوانوں کی رہنمائی کر ے گی، قومی رحمت للعالمین اتھارٹی کا چیئرمین انتہائی تجربہ کار، ماہر اور اعلی تعلیم یافتہ ہو گا، اتھارٹی کا مقصد نوجوانوں کو حضرت محمد ? کی سیرت طیبہ سے متعلق آگاہ کرنا ہے، یہ اتھارٹی بیرون ملک بھی روابط قائم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ سکولوں میں 8ویں سے 10ویں تک سیرت النبی نصاب میں شامل کی گئی ہے، سکالرز کے ذریعے سکولوں میں اس کی مانیٹرنگ کی جائے گی، سیرت النبی سے متعلق مذہبی سکالرز کے ذریعے آگاہی پیدا کی جائے گی، ٹیلیویڑن پر پروگرام ہوں گے، اس اتھارٹی کے تحت انٹرنیشنل سیل ہو گا جس کے ذریعے عالمی سطح پر اسلامو فوبیا کے خلاف اقدامات کئے جائیں گے، اقوام متحدہ سمیت عالمی سطح پر دانشمندانہ موقف پیش کیا جائے گا، جب حضرت محمد ? کی شان میں گستاخی ہوتی ہے تو ہم اپنے ملک میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں جبکہ وہ لوگ اسلامو فوبیا کو آگے بڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام پیار کا دین ہے، تقسیم کرنا ہمارا دین نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو رحمت للعالمین سکالر شپس دے رہے ہیں، یہ سکالر شپس میرٹ پر قابل اور اہل نوجوانوں کو دیئے جا رہے ہیں، اس حوالہ سے مسائل اور شکایات سنٹرلائزڈ نظام کے تحت آن لائن سنیں جائیں گی، حکومت سیرت النبی سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کرے گی، یہ نوجوان اس ملک کو عظیم بنائیں گے۔
