پنجاب میں 17جولائی صوبائی اسمبلی کی 20نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج تو آپ کے علم میں آ ہی چکے ہیں ان کو دوبارہ تذکرہ ضروری نہیں، یہاں ہم بات کریں گے ان نتائج کی وجوحات اور آئندہ کی سیاسی صورتحال کی جس پر بحث و مباحثے کا آغاز ہو گیا ہے ، وزیر اعظم میاں شہباز شریف آج جب یہ تحریری لکھی جا رہی ہے انہی پہلووں پر غور کے لیے اپنی حکومت کے اتحادیوں اور پی ڈی ایم کی قیادت کا اجلاس لاہور میں طلب کیا ہے جبکہ تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان ایک روز قبل اپنی کور کمیٹی کا اجلاس بلا کر اپنی جیت کو سیلیبریٹ کر چکے ہیں اور انھوں نے آئندہ کے حوالے سے کچھ فیصلے بھی کر چکے ہیں ، مسلم لیگ ن کی طرف سے اس وقت جو باتیں سننے میں آ رہی ہیں وہ یہی ہیں کہ اس نے اس الیکشن میں اپنی شکست کو تسلیم کر لیا ہے جس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے شکست کو تسلیم کر کے بڑے پن کا ثبوت دیا ہے ، لیکن یہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتی تھی کیونکہ یہ الیکشن تو اس کے دور میں ہوا ، جب حکومت بھی اس کی انتظام بھی اس کا فیصلے بھی اس کے ، انتظامیہ بھی اس کی پولیس بھی اس کی تو اس کے لیے تو دھاندلی کا الزام لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، لہذا اس نے تو شکست تسلیم کرنی ہی تھی ، ذرائع کا کہنا کہ ن لیگ کی قیادت کو الیکشن سے پہلے ہی اپنی ہار یقینی نظر آ رہی تھی ، اس نے دیکھ لیا تھا کہ مریم نواز جو انتخابی مہم کی قیادت کر رہی ہیں کی مہم میں زیادہ زور نظر نہیں آ رہا ، ان کے جلسے بھی عمران خان کے جلسوں کے مقابلے میں کہیں چھوٹے ہیں ، باوجود اس کے کہ عوام کو زبردستی اور سرکاری مشینری کے ذریعے ان میں لانے کی کوشش کیی جا رہی ہے ، لیکن لوگوں کی تعداد پھر بھی اتنی نہیں ہوتی کہ اس کو اطمینان بخش قرار دیا جائے ، لہذا مریم کی مدد کے لیے کچھ وزرا ء کو وزارتوں سے استعفے دلوا کر میدان میں اتارا گیا لیکن بات پھر بھی نہ بنی اور ن لیگ کی انتخابی مہم میں روز پیدا نہ ہو سکا ، یہاں یہ بات بھی بتانا ضروری ہے کہ یہ تیسری انتخابی مہم ہے جس کو مریم نواز نے اپنی پارٹی کی جانب سے لیڈ کیا اور اس میں ان کو شکست ہوئی ، اس سے پہلے گلگت ، بلتستان پھر آزاد کشمیر اور اب پنجاب کے ضمنی الیکشن اور یہ ان تینوں میں یہ اپنی پارٹی کو فتح نہ دلوا سکیں ، اس سے ایک تو پارٹی میں ان کی پوزیشن کو دھچکا پہنچا ہے اور آئندہ یقینا پارٹی اگر اختیار شہباز شریف کے پاس رہا تو یہ ذمہ داری دینے سے گریز کرے گی اور دوسرا یہ کہ یہ مسلسل تیسری شکست مریم نواز کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا باعث بھی بنے گی ،اب سے پہلے تک پارٹی کے اندر یہ سوچ تھی کہ مریم نواز شاید بے نظیر بھٹو کا متبادل ہو سکتی ہیں جس طرح ان ( بے نظیر)کے اندر شخصیت کاایک کریزما ہے ویسا ہی کریزمہ مریم نواز کی شخصیت میں بھی ہے یہی وجہ ہو گی کہ جب مریم نواز الیکشن مہم کے لیے میدان میں نکلیں گی تو لوگ ن لیگ کی طرف کھینچے چلے آئیں گے ، اسی تاثر کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع شروع میں مریم نے بھی وہی انداز اختیار کرنے کی کوشش کی لیکن مسلسل شکست نے ان سب باتوں کو جھوٹا ثابت کر دیا اور یہ طے کیا کہ مریم نواز میں بڑا لیڈر بننے کی صلاحیت نہیں ، وہ صرف اس لیے بڑی لیڈر نہیں بن سکتیں کہ نواز شریف کی بیٹی ہیں بلکہ اس کے لیے انھیں خود بھی کچھ کر کے دکھانا ہو گا ،پھر کرپشن کے مستقل بیانیے کے ذریعے جو بوجھ عمران خان نے شریف خاندان کے کندھوں پر لاد دیا ہے وہ بھی ن لیگ کی مقبولیت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ عمران خان کے بیانیے میں امریکی سازش کا جو نیا تڑکا لگا ہے اس نے بھی عمران خان کی مقبولیت کو بڑھانے کا جو کام کیا ہے اسی نے ن لیگ کی شکست میں اہم کردار ادا کیا ہے ،ضمنی الیکشن میں شکست کا ایک پہلو ہ یہ بھی ہے کہ ن لیگ کی قیادت نے خود بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ اس الیکشن میں ان کی جماعت ایک پیج ہر نہیں تھی اور اس کو اندر سے ہی مخالفت کا سامنا تھا کہ کیونکہ جس پالیسی کی تحت ٹکٹ تقسیم کیے گئے تھے اس کو پارٹی میں پذیرائی نہیں ملی ، یعنی بیشتر ٹکٹ ان لوگوں کو دیے گئے جنھوں نے پی ٹی آئی میں ہوتے ہوئے اپنی پارٹی پالیسی سے انحراف کیا اور وزیر اعلی کے الیکشن میں حمزہ شہباز کو ووٹ دیا اسی جرم میں الیکشن کمیشن کی جانب سے اور پھر نا اہل ٹھہرے ،اب چونکہ ن لیگ نے ان کو اگلے الیکشن میں ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اس الیکشن میں وہی لوگ اس کے امیدوار ٹھہرے پھر وہی ہوا کہ جس طرح یہ 20لوگ صوبے عثمان بزدار کی حکومت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئے تھے اسی طرح یہی لوگ حمزہ شہباز کی حکومت کے خاتمے کا باعث بھی بن گئے ، ان لوگوں کو ن لیگ کا ٹکٹ ملنے پر پارٹی کے اندر سے ردعمل آیا جو اس کی شرمناک شکست کا باعث بن گیا جس کا وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ سمیت بعض دیگر پارٹی رہنمائوں نے اعتراف بھی کیا ،یعنی وہ لوگ جو پارٹی کا اصل اثاثہ تھے اور اپنے آپ کو ٹکٹ کا اصل حقدار سمجھتے تھے انھوں نے لوٹوں کو ٹکٹ ملنے پر پارٹی کا ساتھ نہیں دیا اور یہی بغاوت جو ضمنی الیکشن میں شکست کا باعث بنی ،
آئیے اب ہم کچھ بات کرتے ہیں آئندہ کی صورتحال کی کہ اب کیا ہو گا اور حالات کس طرف جائیں گے تو لگ یہ رہا ہے کہ یہ سیٹ اپ ابھی کچھ ماہ اور چلے گا ، کہ نہ تو شہباز شریف اسمبلیاں توڑیں گے اور نہ ہی عمران خان ایسا کوئی قدم اٹھائیں گے ، حالانکہ وہ مسلسل فوری اور صاف اور شفاف الیکشن کا مطالبہ کرتے چلے آئے ہیں ، اب جب کہ وہ ایسی صورتحال میں آ گئے ہیں کہ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑ کر وفاقی حکومت کو نئے الیکشن کی طرف جانے پر مجبور کر سکتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے بلکہ کچھ عرصے تک اسمبلیوں کو چلائیں گے اور حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے اگلے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے کیونکہ انھوں نے پارٹی قیادت کی جانب سے یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اسمبلی کو توڑنے کی بجائے پنجاب کے اندر رہتے ہوئے اگلی الیکشن کی تیار کریں ، پنجاب کے ناسر اپنے قدم مزید مضبوط کریں ، پارٹی کی تنظیم سازی کر کے اور اسے زیادہ منظم کر کے 2023کے الیکشن کی تیاری کی جائے اور یہ جو وقت ملا ہے اس کو پارٹی کی پوزیشن کو پنجاب میں مزید مستحکم بنانے اور ن لیگ کو مزید کمزور کر نے کے لیے استعمال کیا جائے ، اسی دوران اگر پنجاب میں بلدیاتی الیکشن ہو جاتے ہیں تو یہ پارٹی کے لیے اور بھی زیادہ فائدہ منڈ ہو گا ، ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات عمران خان کو سمجھ بھی آ گئی ہے ، اسی لیے وہ خود سے اسمبلی کو نہیں توڑیں گے ، بلکہ وہ وفاقی حکومت سے مطالبے کرتے رہیں کہ گے کہ وہ اسمبلیوں کو ٹوڑ کر نئے الیکشن کا اعلان کریں ۔
ووسری جانب وفاقی حکومت کی جانب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ ابھی موجودہ سیٹ اپ کو برقرار رکھنے کے حق میں ہیں ، پیپلزپارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری نے تو واضح طور پراعلان کر دیا ہے کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی اور آج وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی جانب سے اتحادیوں جماعتوں اور پی ڈی ایم کا جو اجلاس بلایا گیا ہے ، اس میں بھی اسی پہلو پر مشاور ت کی جائے گی ، لیکن بات یہ ہے کہ اب جبکہ کہ وفاقی حکومت صرف اسلام آباد تک محدود رہ گئی ہے اور اس کے دائیں اور بائیں جانب مخالفین کی حکومت ہے تو ان کے پاس اقتدار میں رہنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے ، سوائے اس کے کہ اپنے آپ کو مزیدگندہ کرایا جائے اور اگلے عام انتخابات تک آپکی مقبولیت کو اور نقصان پہنچایا جائے جس کا غمیازہ انھیں 2023کیانتخابات میں بھگتنا پڑ سکتا ہے ،
ن لیگ اب کھسیانے بلی کی طرح یوں کھمبا نو چ رہی ہے کہ یہ تو بیس کی بیس سٹیں پی ٹی آئی کی تھیں جن میں سے 4سیٹیں ہمیں مل گئی ہیں،لہذا شکست کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، یہ بات تو پی ٹی آئی کے سوچنے کی ہے کہ اس کی 5سٹیں چھن گئی ہیں ، بات یہ ہے کہ ان سٹیوں کو جیتنے کا آپ کو کیا فائدہ ہوا ، آپ کی حکومت تو پھر بھی باقی نہیں رہی اور پورا صوبہ پی ٹی آئی کے پاس چلا گیا جو اب اگلے الیکشن تک آپ کا خوب رگڑا گلے گا ۔