سول نافرمانی اور حکمران طبقات

آزاد کشمیر اس وقت ایک بڑی شورش کا مرکز بن چکا ہے ، اسے بیداری کہیں یا بغاوت ، سول نافرمانی کی تحریک کہیں یا حق کی خاطر احتجاج کرنا ، حکومت کے لیے ،حکومت کرنا مشکل ھو چکا ھے ،خواتین ، مرد اور بچے اب سڑک پر چلتے وزراء تک کو باآسانی روک کر سوال پوچھتے اور آپے سے باہر ھو جاتے ہیں ، یہ چنگاری راولاکوٹ سے بھڑکنا شروع ھوئی تھی آج تمام اضلاع میں پھیل چکی ہے ، پہیہ جام ، شٹر ڈاؤن ، احتجاج میں غیر معمولی افراد کی شرکت ، کسی بڑے سانحے کا ذریعہ بن سکتی ھے ، سر فہرست بجلی کے بل ، آٹا اور دوسری سہولتوں کی مانگ ھے ، دیکھا جائے تو ھائیڈروپاور بجلی کی پیداوار میں آزاد کشمیر کا حصہ اول دریا ، دوئم منگلا ڈیم ، سوئم نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ، اور کئی چھوٹے دریاؤں پر بنائے گئے پراجیکٹس کی صورت میں نصف ھے جس سے وفاق سمیت مختلف صوبوں کو بجلی فراہم کی جاتی ہے ، اسی لیے آزاد کشمیر کے عوام کو بجلی کے بلوں میں سبسڈی دی گئی تھی جو اب ختم کر دی گئی ، آٹے کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ جو آٹا میسر بھی ہے وہ انتہائی ناقص اور مہنگا ھے ، 45 لاکھ افراد پر مشتمل یہ ابادی بڑی وائبربرنٹ سوسائٹی ھے ، جس میں سیاسی ، سماجی اور معاشی شعور پاکستان کے صوبوں سے زیادہ ہے ، دوسری بڑی وجہ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے جسے وزراء ، خاندانی کروفر میں مبتلا طبقات سمجھنے سے قاصر ہیں ، بجلی کے بل جلائے جا رہے ہیں ، کھمبے اکھاڑے جا رہے ہیں اور آئے دن ہڑتال تجارت ، سیاحت اور کار حکومت کے لئے مشکلات کا باعث ھے ، کیا یہ احتجاج انتشار میں بدلے گا تو حکمرانوں کو خبر ھوگی یا اس پر کان دھرے جائیں گے ایک نہایت ہی خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ سارے مخالفانہ جذبات کبھی بھارت کے خلاف تھے جو تیزی سے اپنے حکمرانوں کے خلاف بھڑک رہے ہیں ، اس کے اثرات مقبوضہ کشمیر کے عوام پر بھی پڑ رہا ہے ، انہی حقائق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، ایک بات طے ہے کہ آزاد کشمیر میں قائم حکومتیں اگر انصاف کرتیں اور عیاشیوں میں مبتلا نہ ھوتے تو 13300 مربع کلومیٹر اور 42 لاکھ ابادی کا یہ علاقہ کرہ ارض پر ایک مثالی خطہ ھوتا مگر کیا کیا جائے ، پہلے پجارو ،پلاٹس اور اب لینڈ کروزر، ھاؤسنگ سوسائٹیوں کا ٹرینڈ لاکھوں کی زندگیاں نگل رہا ہے ، فنڈز نہ ملنے کا بہانہ عام ہے جب ملتے تھے تو کیا کیا گیا ، اسلام آباد ، دوبئی ، انگلینڈ اور جو بچ جاتے ہیں وہ سرکاری عمرے کرنے پر اپنی کسر نکال لیتے ہیں ، سول نافرمانی کا ماضی اچھا برا دونوں صورتوں میں رہا ہے مگر وہ غیر ملکی قابضین کے خلاف تھا ، یہ اپنوں کے خلاف عدم تعاون کی تحریک خطرناک ترین ھو سکتی ھے ،
مئی 1920 ء میں برطانوی راج کے دوران گاندھی جی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے تحریک ترک موالات ،کا آغاز کیا تھا جس کا ب تحریک خلافت کی محدود کامیابی سے متاثر ہو کر آغاز کیا گیا تھا ، اسے تحریک عدم تعاون کا نام دیا گیا ، یعنی حکومت کے ہر حکم خصوصاً محصولات نہ ادا کرنا ، اور حکومت کے احکامات سے انکار کر دینا سول نافرمانی کہلایا گیا ، مولانا محمد علی جوہر سمیت مسلم رہنماؤں نے اس کا زیادہ اثر لیا ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جب یہ تحریک پہنچی تو طلباء نے انگریز اساتذہ کا بائیکاٹ کر دیا ، گاندھی جی اپنے اثر و رسوخ والے اداروں میں سول نافرمانی میں ناکام رہے تو تحریک نے اسلامیہ کالج لاہور کا رخ کیا یہاں بھی مسلم رہنماؤں ، کی وجہ سے کامیابی ملی ، علامہ اقبال ان دنوں انجمن حمایت اسلام کے جنرل سیکرٹری تھے ان سے مشورہ کیا گیا ، انہوں نے کالج کی بندش کی حمایت نہیں کی البتہ عوامی سطح پر اس تحریک اور تحریک کے رہنماؤں گاندھی جی ، مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا محمد علی جوہر ، شوکت علی جوہر ، اور دیگر رہنماؤں کی کاوشوں کی تعریف کی ، زمیندار اخبار اور نوجوانوں کی دھواں دھار تقاریر کی آواز نے برطانیہ کو ھلا کر رکھ دیا اور مظاہرین سے مذاکرات اور مطالبات کو حل کرنے کا فیصلہ کیا ، تب سے آج تک سول نافرمانی کی دھمکیاں سننے کو تو بہت ملیں تاہم سول نافرمانی کی تحریک کا نام سننے سے سیاسی جماعتیں ڈر جاتی ہیں کیونکہ دامن صاف نہیں مگر آج کشمیر کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک شروع ھو چکی ھے ، پاکستان کے کئی شہروں میں بھی اس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ،اوپر سے آئی ایم ایف کا مکمل دباؤ ، معاشی ابتری ، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ، کہیں ایک بڑے انتشار میں نہ بدل جائے یہ خطرہ اس وقت زیادہ ھوتا ھے جب چلنے والی تحریک کی کوئی قیادت اور مشترکہ نصب العین نہ ھو ، یہ ایک عام اصول ھے کہ تین آدمی ھو تو ایک کو امام بنا لیں ، میرے خیال میں اس تحریک کی ایک مشترکہ اور دیانتدار قیادت ھونی چاہیے ، اور مقاصد واضح ھونے چائیے ، ورنہ بڑی بڑی تحریکوں کو نقصان پہنچا اور نتائج کچھ بھی نہیں نکلے ، حکمران ھوں یا مزاحمت کار دونوں کو اس پر سوچنا چاہیے ، آج کشمیر عملاً ہر سرگرمی کے لیے بند ھے ، یہ عام طور پر بڑا پرامن اور رواداری پر مشتمل خطہ ہے جس میں اٹھنے والا یہ انقلاب تھمے گا نہیں کیونکہ مظفرآباد اور کشمیر ھاؤس میں بیٹھے حکمران اس سے لاتعلق ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں