میرے قلم سے

تحریر ۔ابن سرور۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے اتوار 19جون کو پوری قوم بلخصوص اپنے کارکنوں کو ایک اور احتجاج کی کال دے دی ہے ، اس احتجاج کا مقصد موجودہ حکومت کے دورہمیں ہونے والی ہوش ربا مہنگائی کے خلاف آواز بلند کر نا ہے ، پارٹی کی جانب سے احتجاج کی کال ملتے ہیں اسے بھرپور بنانے کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں ، یہ احتجاج پورے ملک ہو گا ، جس میں عمران خان کی جانب سے ہر شہری کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ اگر اس وقت لوگ باہر نہیں نکلیں گے تو وہ ان حکمرانوں ـ}جو اپنے بیرونی آقائوں کے دباو پر ان پر مہنگائی مسلط کرنے میں مصروف ہیں{ سے جان نہیں چھڑا سکیں گے ،
موجودہ اتحادی حکومت نے جس بے شرمی سے عوام پر مہنگائی کے پہاڑ توڑنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ۔ جس ڈھٹائی کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ کیا جا رہا ہے اسی ڈھٹائی سے ان کی جانب سے ہر بار اس کا الزام عمران خان پر عائد کر دیا جاتا ہے اور انھیں اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دے کر یہ پراپیگنڈا کیا جا تا ہے کہ انھوں نے اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف کے ساتھ انتہائی سخت شرائط پر جو معاہدے کیے وہی حالیہ مہنگائی کی بنیادی وجہ ہیں ، تو سوال یہ ہے کہ جو معاہدے عمران خان نے کیے ان پرآپ کو اپنا منہ کالا کرنے کی کیا ضرورت ہے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مبینہ طور پر ان عوام دشمن معاہدوں سے آگاہی ہو جانے کے بعد آپ اقتدار عمران خان کو واپس کرتے اور اپوزیشن میں واپس چلے جاتے تاکہ عمران خان کو ہی اپنے کیے کی سزا بھگتنی پڑتی لیکن نہیں انھیں تو اقتدار میں آنے کی جلدی ہی اتنی تھی کہ اس کے لیے اتحادیوںنے کسی بھی خطرے کی پرواہ ہی نہ کی اور اب سر پر پڑی ہے تو کہتے ہیں کہ عمران خان ذمہ دار ہے ،
عمران خان نے تو کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے شرائط ماننے کے لیے ان پر بھی بڑا دبائو تھا لیکن انھوں نے عوام کی خاطر اس دبائو کے آگے مزاحمت کی اور اس کی ہر شرط کا ماننے سے انکار کر دیا ، اب اس حکومت کو کیا پڑی تھی کہ اس نے بغیر کسی چوں چرا کے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ۔اور صرف اپنے اقتدار کی خاطر عوام کے لیے مشکلات کے ایسے پہاڑ کھڑے کر دیےجن سے عام آدمی کی زندگی اجیرن سے اجیرن تر ہو کر رہ گئی ہے ، دوسری جانب اس صورتحال سے خود حکومت بھی بہت پریشان ہے ، اس کے اوسان خطا ہو کر رہ گئے ہیں جبھی تو ایک ایک دن میں ڈھیروں حکومتی وزیر پریس کانفرنسیں کرتے ہیں اور اپنی نالائقیوں کو عمران خان کے معاہدوں کے پیچھے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں ، ان کے چہروں سے ان کے پریشانی عیاں رہتی ہے ، ان کو کوئی کہے کہ بھئی فوری اقتدار میں آنے کا شوق بھی تو آپ ہی کا تھا ، ورنہ ڈیڑھ سال کوئی اتنا بڑا عرصہ نہ تھا کہ اس کا انتظار نہ کیا جاتا اور پھر الیکشن کے ذریعے حکومت میں آنے کی کوشش کی جاتی ،اب کیا ہے تو اس کی سزا تو بھگتنی ہو گی ، یہ تو عمران خان کے لیے نیک شگون ہوا کہ سخت معاہدے کرنے کے باوجود وہ ان کی زد میں آنے سے بچ گئے ، اورسارا ملبہ ن لیگ پر گرا ، اس کو عمران خان پر اللہ تعالی کی مہربانی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ ایسے وقت میںجب ان کے دور میں ہونے والی مہنگائی کے باعث ان کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر رہا تھا اور وہ دبائو کا شکار دکھائی دے رہے تھے اللہ تعالی نے انھیں دیکھتے ہی دیکھتے اقتدارسے ایسے علیحدہ کیا کہ سب حیران رہ گئے اور پھر مسلم لیگ ن کو وہ سار ا بوجھ اٹھانا پڑگیا جو اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا ، ن لیگ کو یہ گمان تھا کہ اس کے پاس شاید عمران خان سے زیادہ ماہر ٹیم ہے اور پھر میاں شہباز شریف بھی اقتدار کاوسیع تجربہ رکھتے ہیں ,، جبکہ میاں صاحب کو اپنی پنجاب سپیڈ پر بھی بڑا ناز تھا لیکن افتادہ پڑنے پر انھیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ایک صوبے کی حکومت چلانا جہاں چپڑاسی سے لے کر سیکرٹری تک اپنا ہو اور ایک مرکزی حکومت چلانا جہاں ہر چیز کا تجربہ نیا ہو دو مختلف چیزیں ہیں ،
اس وقت ن لیگ کے لیے مہنگائی کا چیلنج ہی سب سے بڑی پریشانی کی بات نہیں بلکہ اس کے لیے ایک اور بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ اتحادی حکومت ہونے کے باوجود سب سے زیادہ تنقید کی زد میں بھی وہی ہے جبکہ اس کی دیگر دو بڑی اتحادی جماعتیں تو صرف اقتدار انجوائے کرتی دکھائی دے رہی ہیں ، پیپلزپارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری نے اپنے بیٹے بلاول بھٹوکو وزیر خارجہ بنوا کر انھیں مستقبل میں ایک بڑا لیڈر بننے کی تیاریوں میں مصروف کر دیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو مہنگائی کی خبروں سے لاتعلق ہو کراسوقت سے بھر پور فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں شاید ان کی کوشش ہے کہ اس مختصر سے وقت میں زیادہ سے زیادہ بیرونی دورے کر کے دنیا کو اپنی پہچان کرائی جائے اور خارجہ امور میں مہارت حاصل کی جائے، جبکہ دوسرے اتحادی مولانا فضل الرحمن بھی ان دنوں سیاسی منظرسے غائب ہیں ایسا لگتا ہے کہ ان کا مسئلہ صرف عمران خان کو اقتدار سے ہٹانا تھا جو حل ہو چکا ہے ، اب ان کی بلا سے سستائی ہو یا مہنگائی ، عوام جانے اور ن لیگ جانے ، اقتدار جانے سے ان کو ان کی اوقات کے مطابق وزارتیں بھی مل چکی ہیں جن میں سے ایک بڑی کمائی والی وزارت کے مزے ان کے صاحبزادے لینے میں مصروف ہیں ،
ایسے میں عمران خان کی مہنگائی کے خلاف عوام کو دی جانے والی کال کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں اور وہ کس حد تک حکومت پر اپنا دبائو بڑھانے میں کامیاب ہو تے ہیں اس کا پتہ تو اتوار کی شب ہی چلے گا ، لیکن اتنا ضرور ہے کہ حکومت وقت ان کی احتجاج کی کال سے پریشان ضرور ہے ، کیونکہ وہ مہنگائی کو قابو کرنے میں یکسر ناکام جو دکھائی سے رہی ہے جس کا حساب اس کو الیکشن کے موقع پر دینا پڑ سکتا ہے ،

اپنا تبصرہ بھیجیں