9 مئی کو حساس قومی تنصیبات پر حملوں میں ملوث مجرموں کو بخشا نہیں جانا چاہئے، وزیراعظم محمد شہباز شریف کا قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب

اسلام آباد( یو این آئی ):وزیراعظم محمد شہباز شریف نے 9 مئی کو حساس قومی تنصیبات پر حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شرپسندوں کو ہر صورت قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا، عبرتناک مثال قائم کرنے کیلئے مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی تاکہ کوئی بھی مستقبل میں ایسے واقعات دہرانے کی ہمت نہ کر سکے، ان گھنائونے جرائم میں ملوث مجرموں کو بخشا نہیں جانا چاہئے، کسی کے ساتھ زیادتی ظلم کا سوال نہیں پیدا ہوتا مگر کسی نے جرم کیا ہے تو اس کے بچ نکلنے کا بھی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو پیش آنے والے واقعات سے پاکستان کو شرمندگی اٹھانا پڑی، 9 مئی ایک انتہائی المناک دن تھا اور ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا جوکروڑوں پاکستانیوں کو غمگین کر گیااور پوری عوام ،ہماری مائیں، بہنیں، بزرگ، بچے، ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد انتہائی غم و غصے کی صورتحال میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج کا اجلاس اسی تناظر میں ہو رہا ہے اور ہم آج یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ کونسا نظریہ تھا، کونسا شخص تھا یا کونسا جتھہ تھا جس نے وطن پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت کو نذر آتش کر دیا جس نے جناح ہائوس جو کہ ایک عمارت نہیں تھی بلکہ اس پر لہو سے عبارت لکھی گئی تھی ، وہاں پر جو سپوت مقیم تھے جو پاکستان کی حفاظت کرتے تھے اس کو تباہ و برباد بلکہ راکھ کر دیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں جب وہاں گیا تو یقین نہیں آتا تھا چشم فلک نے ایسی صورتحال پہلے کبھی نہ دیکھی تھی، میں سمجھتا ہوں کہ جو بھی لوگ اس منصوبہ بندی میں شامل تھے جنہوں نے ان جتھوں کو توڑ پھوڑ اور آگ لگانے پر مجبور کیا اور جنہوں نے یہ تباہ کن کارروائی کی وہ یقیناً دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ازلی دشمن 75 برسوں سے ان مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہوا جو کام یہ جتھہ کر گیا جس کی جتنی بھی مذمت اور جتنا بھی غم و غصہ کیا جائے ، کم ہے کیونکہ وہ 65ء کی جنگ ہو، وہ ضرب عضب ہو ، وہ امن و امان قائم کرنے کا منصوبہ ہو، وہ آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ ہو جہاں 100 سے زیادہ بچے اور اساتذہ شہید کر دیئے گئے، وہ پاکستان کی سرحدوں کو محفوظ کرنے کیلئے دیوانہ وار شہادت کا جام نوش کرتے ہوئے کروڑوں مائوں اور بچوں کو بزرگوں کو سکون فراہم کیا ان سپوتوں کی بے حرمتی کی گئی اور بلوے کئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ جی ایچ کیو ،میانوالی کے ایئربیس ، فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر اور ایف سی سکول میں تباہی کی گئی۔ انہوں نے سوال کیا کہ 75 برسوں میں پاکستان میں جتنے بھی برے حالات ہوئے کسی آنکھ نے ایسا دلخراش اور گھنائونا منظر نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں اس ساری صورتحال کا جائزہ لینا ہو گا، پاکستان کے 22 کروڑ عوام اور حکومت یک جان دو قالب ہیں اور اپنی افواج کے ساتھ مکمل وابستگی کا اظہار کرتے ہیں اور اس مذموم حرکت کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، جنہوں نے وطن کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں ان کے ساتھ یہ گھنائونا فعل کیا گیا، ان کی بیویاں بیوہ ہوئیں، بچے یتیم ہو گئے اور ان کے ماں باپ کے آنسو خشک نہیں ہو سکتے، ہم کچھ بھی کر لیں ان شہیدوں کا قرض نہیں اتار سکتے، ان کے ساتھ جو ہوا دشمن بھی نہیں کر سکا۔

وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے ان ملزموں کو 72 گھنٹوں میں گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمات درج کرنے کی ہدایت کی تھی ۔میں نے لاہور میں بھی یہ کہا تھا کہ منصوبہ بندی کرنے والے ، بلوائیوں کو اکسانے والے اور ان سے اپنے سامنے ان گھروں کو آگ لگوانے والے اور نوادرات کو نقصان پہنچانے والے ،شہیدوں اور غازیوں کی بے حرمتی کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں، انہیں ہر صورت قانون کے کٹہرے میں لانا ہو گا ، اگر وزیراعظم بھی کسی کو چھوڑنے کا کہے تو صرف قانون کی پیروی کی جائے تاہم بے گناہ افراد کو کسی صورت بھی تنگ نہیں کریں گے۔

شہباز شریف نے کہا کہ برطانیہ میں آنکھوں دیکھے انصاف کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کی تاریخ میں گنہگاروں کیلئے راتوں کو عدالتیں لگیں اور ملزموں کو قرار واقعی سزا دی گئی، اب ملک کے 22 کروڑ عوام کا مطالبہ ہے کہ جو بے گناہ ہیں ان کو ہاتھ نہ لگایا جائے اور جو گنہگار ہیں ان کو قرار واقعی سزا ملے گی تو رہتی دنیا تک ایسا واقعہ رونما نہیں ہو گا اور پاکستان کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کا یہ اجلاس اپنی افواج پاکستان کے ساتھ بھرپور وابستگی کا اظہار کرتا ہے، ان تمام واقعات کی شدید مذمت کرتا ہے اور قانون و آئین کے مطابق قانون اپنا راستہ اپنائے گا، کسی کے ساتھ زیادتی ظلم کا سوال نہیں پیدا ہوتا مگر کسی نے جرم کیا ہے تو اس کے بچ نکلنے کا سوال نہیں پیدا ہوتا، ہمیں قانونی، آئینی اور انتظامی لحاظ سے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ تاقیامت ایسا واقعہ نہ ہو جس کی وجہ سے کروڑوں لوگ آج بھی رنجیدہ ہیں اور پاکستان کی دنیا میں سبکی ہوئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں