پاکستانی قوم نے ایک روز قبل اپنا 76واں یوم آزادی منایا ، اس دن کے حوالے سے عوام میں روایتی جوش و خروش تھا جس کا اظہار ان کی جانب سے جا بجا نظر آیا ، اس موقع پر پاکستانی عوام کی خوشی تو ایک طرف ہمارے لیے یہ حقیقت اور بھی زیادہ خوشی کا باعث ہے کہ پاکستان کا یوم آزدی منانے کے لیے مقبوضہ کشمیر کے عوام بھی ہمارے شانہ نشانہ تھے ، اس خطے کے مظلوم ، بہادر اور جری عوام نے بھارتی جبر و استبداد کو مشترد کرتے ہوئے پاکستان کے یوم آزادی پر اپنی بھرپور خوشی اور پاکستانی عوام سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا ، ان کی جانب سے خوشی کا یہ اظہار بھارت کے عوام کے سینوں پر مونگ دلنے کے مترادف تھا .اس یوم آزادی کے بعد پاکستان اپنی عمر کے 77ویں سال میں داخل ہو گیا ہے اور اب اس کی عمر کی سیچری مکمل ہونے میں صرف 24 سال کا عرصہ باقی رہ گیا ہے ، یہ 24سال یا ہماری آزادی کا سوواں سال کیسا ہوگا ، کیا ہم انہی حالات میں ہوں گے یا ترقی کی کچھ نہ کچھ منازل طے کر چکے ہوں گے اس بارے میں یقین سے کوئی بات نہیںکہی جا سکتی ، کیونکہ ہم نے اپنے ماضی سے ابھی تک کوئی سبق سیکھا ہی نہیں ، ہم اب بھی پرانی ڈگر پر ہی گامزن ہیں، اب اگر اللہ تعالی کی ذات ہم پر کوئی مہربانی کر دے تو یہ اور بات ہے ،
بہر حال اس سال ہماری یوم آزادی کی سالگرہ ماضی کی سالگراہوں سے کچھ مختلف تھی کیونکہ اسی دن ملک میں اقتدار کی باگ ڈور ایک حکومت سے دوسری حکومت کومنتقل ہوئی ، یعنی چار روز قبل ہی قومی اسمبلی آئینی مدت پوری ہونے سے چار دن قبل تحلیل کر دی گئی جس سے پی ڈی ایم کی حکومت کی رخصتی ہوئی اور میاںشہباز شریف کی وزارت عظمی کا بھی خاتمہ ہو گیا اور ان کی جگہ سابق سینٹر انوارالحق کاکڑ جو صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں نگران وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوگئے ، انھوں نے کل یعنی 14 اگست کو اپنی نگراں وزارت عظمی کے عہدے کا حلف اٹھایا اور عنان اقتدار کو سنبھال لیا ، اس حوالے سے اس سال کے یوم آزادی کو قومی تاریخ میں ایک منفرد مقام حاصل ہو گیا ،
ہم اگر اپنی ماضی کی تاریخ دیکھیں تو ہمارے ہاںایسا کم ہی ہوا گا کہ ایک حکومت سے دوسری حکومت کو اقتدار کی منتقلی خوش اسلوبی سے ہوئی ہو ، اس حوالے سے بھی اس سال کے یوم آزادی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ قوم نے نہایت پرامن ، احسن اور باوقار طریقے ایک حکومت کو جاتے اور دوسری حکومت کو آتے دیکھا ، اس پر پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے ،
اس سال کی 14 اگست پر قوم کو اس حوالے سے بھی مبارک باد دینا بنتی ہے کہ اسی دن اسے اس حکومت اور وزیر اعظم سے نجات ملی جو اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کا آلہ کار بنتے ہوئے ایک منتخب حکومت پر شب خون مار کر اقتدار پر قابض ہوئی اور پھر اس نے اپنی نالائقیوں اور نا اہلیوں کے باعث انتہائی بری حکمرانی کرتے ہوئے عوام کو مہنگائی کے ایسے دلدل میں دھکیل دیا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیںملتی ، اس کے باوجود سابق وزیر اعظم کا فرمانا تھا کہ وہ مطئن ضمیر کے ساتھ واپس جا رہے ہیں ،
اپنے اس مطمئن ضمیر کا اظہار انھوں نے 13 اگست کو بحیثیت وزیر اعظم قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا ، بعض حلقوںکے خیال میںوہ ایسا کیسے کہہ سکتے تھے جبکہ انھوں نے جاتے ہوئے ڈالر کو 280 روپے ، پیٹرول کو 275 روپے فی لیٹر ، دودھ لو 220 روپے فی لیٹر، گھی کو 650 روپے فی کلو، چینی کو 170 روپے فی کلو ،آٹے کو 250 روپے فی کلو پر چھوڑا ، روٹی کو 20 روپے اور نان کو 25 روپے پر پہنچا دیا ، اور غریب طبقات پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ، آپ دور حکومت انسانی حقوق کے تحفظ اور سیاسی انتقام کے حوالے سے بھی ایک بدترین دور تھا ، آپ کے دور میں اپنے ہی عوام پر ہونے والے ظلم و تشدد کی مثالیں تو مارشلائی ادوار میں بھی نہیں ملتیں ، عوام پر ہونے والے ظلم تشدد کا ذمہ دار چاہے کوئی مخصوص ادارہ ہی کیوں نہ ہو اس سب کا ملبہ تو آپ کو ہی اٹھانا پڑے گا اور اس کا جواب دے بھی آپ ہی کو ہونا ہو گا ، ان سب حقائق کے باوجودہ آپ کا یہ کہنا کہ آپ مطمئن ضمیر کے ساتھ واپس جا رہے ہیں باعث حیرت ہے . معلوم نہیں آپ کی ڈکشنری میں مطمئن ضمیر کس کو کہتے ہیں، ہمیں تو آپ کا یہ دعوی قوم کے ساتھ صرف ایک مذاق ہی نہیں بلکہ بدترین اور بھونڈا مذاق لگتا ہے ، جس کا خمیازہ آپ کو یقین اگلے عام انتخابات میںبھگتنا پڑے گا ،