تحریک انصاف کی پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں‌تحلیل ، شہباز حکومت کا بچنا مشکل .

اسلام آباد :- تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلے سے مرکزمیں پی ڈی ایم حکومت کے لئے مشکلات بڑھ گئیں، وزیراعظم شہبازشریف کے لئے اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کی کوششیں ناکام ہوتی دکھائی دینے لگیں۔ صورتحال کے نتیجے میں ن لیگ کی اعلیٰ قیادت نے سرجوڑ لئے ۔

قائد ن لیگ میاں نوازشریف نے آئندہ کی حکمت عملی پر غور کیلئے لندن میں اجلاس طلب کرکے پارٹی قائدین سے تفصیلی صلاح مشورہ کیا۔

واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی سے اعتماد کاووٹ حاصل کرنے کے بعد وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے صوبائی اسمبلی کے خاتمے کی تجویز گورنر پنجاب کو تحریری طور پربھیج دی، جو جمعرات کی شب ہی گورنر ہاوس کو موصول ہوگئی،

مونس الہی کی پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے متعلق سمری کی موومنٹ کی لمحہ بہ لمحہ صورتحال سے میڈیا کو آگاہ کرتے رہے ،

آئین کےتحت گورنر پنجاب اگر اس سمری کی منظوری نہیں دیتے تو 48گھنٹوں بعد اسمبلی خود بخودتحلیل ہوجائےگی اس صورتحال میں وفاقی حکومت جو پہلے ہی بہت سے چیلنجز کا شکارہے اب اپنے وجود کے ایک بڑے چیلنج کا شکار ہو گئی ہے .

کیونکہ دو صوبوں‌کی اسمبلیاں‌ٹوٹنے کے بعد وفاقی حکومت کے برقرار رکھنے کا جواز باقی نہیں‌رہ جائے گا .یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ شہباز حکومت کے لیے صوبہ سندھ کی یسایسی صورتحال بھی کسی بڑے خطرے سے کم نہیں‌ہے جہاں پی ڈی ایم نامی اتحاد کی دو جماعتیں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم آپس میں باہم دست و گریباں ہیں‌اور 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات نے انھیں ایک دوسرے کے +منے سامنے لکا کھڑا کیا ہے .

اب اگر سندھ کی صورتحال کے نتیجے میں ایم کیو ایم حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہو جاتی ہے تو پھر وفاقی حکومت کے پلڑے میں‌کچھ باقی نہیں‌رہ جائے گا ، اور اس کا اپنے پیروں‌پر کھڑے رہنا مشکل ہی نہیں‌بلکہ نہ ممکن ہو گا ،

بلدیاتی الیکشن سے متعلق ایم کیو ایم کے مطالبات پر غور کے لیے اگر چے پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنی پارٹی کا اجلاس طلب کر کے دونوں جماعتوں کے تعلقات کا جائزہ لیا اور ایم کیو ایم کے مطالبات پر غور کر نے کے علاوہ پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب اور کے پی کی حکومتوں کے خاتمے کے خلاف حکمت عملی پر مشاورت کی ،

واضح رہے کہ ایم کیو ایم سندھ حکومت سے اس بات پر نالاں‌ہے کہ اس کے ساتھ رجیم چین کے موقع پر کیے گئے وعدوں کو پیپلز پارٹی نے پورا نہیں کیا اور اب کراچی اور حیدرآباد میں15 جنوری کو بلدیاتی الیکشن بھی پرانی حلقہ بندیوں کے مطابق کر ا نے کا فیصلہ بھی دونوں پارٹیوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی صریحا خلاف ورزی ہے ، ایم کیو ایم کا وفاقی حکومت سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے ، لیکن وفاقی حکومت بھی اس حوالے سے ناکام دکھائی دیتی ہےجس نے متحدہ کے بارے کو اور بھی گرما دیا یے اور وہ اب مرکز میں بھی حکومت چھوڑنے کو تیار بیٹھی ہے .

لہذا یہ صورتحال اگر یونہی برقرار رہتی ہے تو پھر پی ڈی ایم حکومت پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کی تحلیل اور مرکز سے ایم کیو ایم کی علیحدگی کے جھٹکے کو سنبھال نہ پائے گی اور اس کا وجود برقرار رہنا نہ ممکن ہو جائے گا ، لیکن اگر ایم کیو ایم وفاقی حکومت سے علیحدہ نہیں‌بھی ہوتی تو شہباز حکومت کی رخصتی کے لیے تحریک انصاف کا دو اسمبلیوں کوتوڑنے کا وار ہی کافی ہو گا ج،ایسے میں وزیراعظم کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ ہو گا کہ وہ قومی اسملی کو تحلیل کرکے عام انتخابات کی طرف جائیں،

اب دیکھنا یہ ہے کہ شہباز شریف یہ اقدام کب اٹھاتے ہیں ، ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کے اغبارے سے ہوا نکل چکی ہے اور نئی صورتحال سے بچ نکلنے کے لیے سرتوڑ کوششیں شروع ہو گئی ہیں ، کم از کم ایم کیو ایم کو ہی روکنے کے لیے
لیے وزیر اعظم شہباز شریف ، سابق صدر آصف زرداری اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضٌل الرحمن باہمی رابطوں میں مصروف ہیں ، ان کی جانب سے متحدہ کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کو فون کر کر کے ان پر زور دے رہے ہیں کہ حکومت میں شامل رہیں جبکہ ایم کیو ایم کی قیادت پر اندر سے دباو ہے کہ وہ حکومت سے علیحدہ ہو جائیں‌،یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس جمعہ کے روز رات گئے تک جاری رہا جس میں مستقبل کے حتمی فیصلے پر غور کیا گیا تاہم متحدہ کی قیادت کسی حتمی فیصلے پر پہنچنے میں ناکام رہی .

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے خیبرپختونخو احکومت کے خاتمے کے لیے بھی آخری اقدام اٹھا لیا جس کے تحت وزیر اعلی کے پی محمود خان کی جانب سے اسمبلی کی تحلیل کی تجویز گورنر کو بھجوا دی گئی ، یہاں بھی آئین اسی طرح سے عمل کرے گا کہ اگر گورنر 48 گھنٹوں تک سمر ی پر دستخط نہیں کرتے تو اسمبلی خود بخود ٹوٹ جائے گی .

اپنا تبصرہ بھیجیں