عنوان ۔
عدم اعتماد ، ایک اور شکست کی خواہش
تحریر ۔۔ابن سرور
پاکستان ڈیموکریکٹ موومنٹ (پی ڈی ایم) نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان کرکے ملک میں ایک نیا ہیجان پیدا کردیاہے ۔ اب تحریک عدم اعتماد پر کارروائی تک ملک غیریقینی صورتحال سے دوچار رے گا اور تمام معاملات کارخ ایک ایسی سیاست کی طرف مڑ جائیگا جس میں اپوزیشن کی کامیابی کے امکانات حتمی نہیں ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں ملک افراتفری کی صورتحال سے دوچار رہے گا جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا ہوگا۔ موجودہ دورحکومت میں پارلیمنٹ کے اندر بار بار کی شکستوں کے باوجود اپوزیشن کی طرف سے ایک مرتبہ پھر عدم اعتماد کا کارڈ کھیلنا معنی خیز ہے۔گزشتہ ایک سے دو ہفتو ں کے دوران اپوزیشن کی جانب سے غیرمعمولی سرگرمیاں دیکھی گئیں جن کا آغاز پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی قیادت کی ملاقات سے ہوا یعنی اچانک ہی میاں شہبازشریف کی پیپلزپارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ملاقات طے پاگئی اور اگلے ہی روز یہ ملاقات ہو بھی گئی ۔ اس کے فورا بعد ہی آصف زرداری ن لیگ کی قیادت چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی سے ملنے کے لئے ان کے گھر پہنچ گئے اس کے بعد پی ڈی ایم نے وزیراعظم کے خلاف اچانک قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کافیصلہ کرلیا اور اس کیاگلے ہی روز مولانا فضل الرحمان نے بھی چوہدری برادران سے ان کے گھر پر ملاقات کرلی ۔ اسی دوران مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف ایم کیو ایم کی قیادت سے مل لئے اور اب خبر یہ ہے کہ ن بھی آج ق لیگ کی قیادت سے ملاقات کے لئے ان کے گھر جارہے ہیں ان کی چوہدری برادران سے 14 سال بعد ملاقات ہوگی اتنی تیزی سے ہونے والی ان ملاقاتوں پر سیاسی تجزیہ نگار حیران اور یہ تبصرہ کرنے پر مجبور ہیں کہ کیا اپوزیشن کو کسی طرف سے کوئی اشارہ ہے کہ اتنی تیزی سے یہ سب ڈویلپمنٹس ہو رہی ہیں اور باربار کی ہار کے باوجود اپوزیشن نے ایک بار پھر ایک بڑا قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل اپوزیشن نے اس دوران میں پارلیمنٹ میں حکومت سے شکستوں کا حیران کن ریکارڈ قائم کیاہے جس کی ماضی میں ہماری پارلیمانی تاریخ میں مثال نہیں ملی۔ صرف سینیٹ الیکشن میں اسلام آباد سے پیپلزپارٹی کے رہنما سید یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے الیکشن میں کامیابی کے علاوہ حکومت کے خلاف کوئی اور کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔ جہاں اپوزیشن کی سینیٹ الیکشن میں یہ کامیابی حیران کن تھی وہیں اس کو حکومت کے ہاتھوں ہونیوالی شکستیں بھی حیران کن رہیں قومی اسمبلی میں تو اپوزیشن اقلیت میں ہے لہذا یہاں اس کو حکومت سے ہونے والی شکست حیران کن نہیں لیکن اس اپوزیشن نے سینیٹ میں حکومت کے ہاتھوں ہار کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ یعنی اسلام آباد سے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنوانے کے بعد چند ہی روز بعد یہ اپوزیشن اپنے سینیٹر (یوسف رضا گیلانی) کو اکثریت کے باوجود چیئرمین سینیٹ بنوانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ یہی نہیں بلکہ اس سے قبل موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ناکامی نے بھی ملک کے ہر شہری کو حیران کردیا تھا۔ اپوزیشن کو حال ہی میں سٹیٹ بینک ترمیمی بل کے حوالے سے ہونے والی قانون سازی میں بھی حکومت کی جیت نہایت حیران کن تھی ۔ حکومت نے یہ مقابلہ 1 ووٹ کی برتری سے جیت لیا تھا جبکہ اس سے قبل 13 جنوری 2022 کو قومی اسمبلی میں ضمنی مالیاتی بل 2021(منی بجٹ) کی منظوری کے عمل میں اپوزیشن کو واضح شکست کاسامنا کرنا پڑا تھا اور اس پل کے حق میں 163 اور مخالفت میں 146 ووٹ پڑے تھے۔ قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ووٹوں کے اتنے واضح فرق کے باوجود پی ڈی ایم کا تحریک عدم اعتماد کا کھیل کھیلنے کا جواز کیا ہوسکتاہے۔ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے تاہم اس کی جانب سے اس اعلان کے بعد حکومتی اتحادیوں کو فائدہ اٹھانے کا خوب موقع مل گیا ہے ایسے وقت میں حکومت کی اتحادی جماعتیں حکومت سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں جس کا مظاہرہ ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سے دیکھنے میں آرہا ہے جن کی جانب سے حکومت پر دبا بڑھانے کا عمل جاری ہے ۔ ایم کیو ایم کا تو ہر دور میں یہ وطیرہ رہاہے ۔ یہ جماعت ہر حکومت میں شامل رہی ہے اور اس طرح کے دبا کے ذریعے حکومتوں سے فائدے اٹھاتی رہی ہے لیکن اس مرتبہ تو باپ بھی ایک نئے پریشر گروپ کے طور پر سامنے آئی ہے جس کے سینئر نے جمعہ کے روز سینیٹ کے اجلاس میں اپنی پارٹی کے لئے وفاقی کابینہ میں وزارت کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومتی رویے کے خلاف ایوان سے واک آٹ کیا سب اتحادی جماعتیں مفادات کیلئے ہر حربے آزماتی ہیں اور اس کے بعد حکومت کی صف میں ہی کھڑی دکھائی دیتی ہیں ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اب کی بار بھی ایسا ہی ہوگا اور اپوزیشن پھر سے منہ دیکھتی رہ جائے گی جو شاید اس امید میں ہیں کہ سینئر سیاستدان جو ایک بار پھر سیاست میں متحرک ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کہ جانب سے اسے کوئی سپورٹ مل سکتی ہے۔ اس مقصد کی خاطر ن لیگ کا جہانگیر ترین سے بھی رابطوں کا سلسلہ جاری ہے بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی جگہ پر ہونے والی تبدیلی بھی اپوزیشن کو اپنے لئے فائدہ منہ دکھائی دے رہی ہیں۔