عقلیاتی تنقید – مختصر جائزہ

انسان از ابتدائے آفرنینش صداقت کی تلاش میں سرگرداں رہا ہے۔ جب کوئی منظر قدرت نظر کے سامنے آتا اسے حقیقت سمجھ لیتا لیکن جلد ہی انسان ہر پر بھید کھل جاتا ہے کہ یہ منظر قدرت حقیقت نہیں ہے۔ کائنات کے مظاہر سے رفتہ رفتہ آشنائی ہوتی گئی اور انسان ہر قدم پر سچائی جانتا رہا لیکن جونہی یہ واضح ہوتا گیا کہ یہ حقیقت میں ایک اصل حقیقت ہے۔ اس عمل میں انسان کو یہ معلوم ہوا کہ وہ زندگی رکھتا ہے لیکن یہ جاننے کے باوجود کہ وہ زندگی کا حامل ہے، وہ زندگی کو جاننے میں ناکام رہا۔ اس لیے زندگی کی تلاش کو حقیقت کی تلاش پر محمول کرنے لگا۔ زندگی کیا ہے؟ کب سے ہے؟ کب تک ایسے سوالات ہیں جن کی دریافت کو دریافت حقیقت شمار کیا گیا ہے۔ زندگی کی دریافت کے عمل سے یہ پتا چلتا ہے کہ انسانی زندگی اور حیوانی زندگی کے درمیان فرق عقل ہے۔ گویا انسان عقل رکھتا ہے اور جانور عقل نہیں رکھتا جبکہ زندگی دونوں رکھتے ہیں۔ مطاہر نے زندگی کی فہمید کے باب میں جادہ اور غیر جادہ کے درمیان تعلقات کی وضاحت ہے اور عقل کا ایک جداگانہ نظریہ اور غیرحادہ کے درمیان تعلقات کی وضاحت کی ہے اور عقل کا ایک جداگانہ نظر قائم کیا جس کی بنیاد پر عقلیاتی تنقید کا نظریہ پیش کیا۔
“مطاہر نے عقلیاتی تنقید کا نظریہ قائم کرتے ہوئے مادہ اور ذہن یعنی دماغ اور ذہین کے درمیان ایک تعلق کی وضاحت کی ہے اب تک جو مفکرین ہوئے ہیں کم و بیش تمام نے ذہن کو روح قرار دیا ہے یعنی روح ایک غیر مادہ ہے جب یہ دماغ پر حائل ہوتا ہے تو زندگی وجود میں آجاتی ہے۔ جب بھی ذہن اور دماغ سے باہر تعلق کا سوال پیدا ہوتا ہے تو اس پر وہ آرا وجود میں آتی ہیں ہیں جو ایک سائنسی اور دوسری فلسفانہ افکار”
عقلیاتی تنقید کے نظریہ کی اساس عطاہر کا نظریہ عقل ہے۔ مطاہر نے عقل کو عمومی جامہ ہی صرف نہیں پہنایا بلکہ اس کا جداگانہ حیثیت کو تسلیم کیا۔ حواس عقل نہیں ہے بلکہ ان کی مدد سے مشاہدات اور تجربات حاصل ہوتے ہیں۔ یہ حاصل شدہ تجربات اور مشاہدات عطاہر کے سامنے ہمیشہ حقیقت نہیں ہوتے، حواس کے ذریعے حاصل ہونے والے تجربات اور مشاہدات آگہی کا سبب بنتے ہیں اور بعض اوقات التباس ہوتے ہیں اور بعض دفعہ حقیقتاً نظر آنے کے باوجود حقیقت میں ہوتے جبکہ آگہی حقیقت قرار نہیں دی جاسکتی۔ حواس سے آگہی کو جب کوئی حقیقت تصور کرلیتا ہے تو وہ وہ اس ادراک کے رتبے پر فائز ہوتی ہے لیکن ادراک ہمیشہ حقیقت نہیں ہو سکتا مگر ادراک کو حقیقت فرض کر لیا جائے تو اسکے معنی یہ ہوں گے کہ تمام افراد کو ادراک یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ حقیقی حقیقت میں تضاد نہیں ہوتا اور عدم تضاد کی بدولت یہ حقیقت ادراکی نہیں ہوتی۔ مدعا یہ ہے کو حقیقت مدرکہ ہر شخص کے اپنے ذہین پر متھر ہے اور یہ ہر شخص میں جداگانہ ہوتی ہے یہ چونکہ جداگانہ ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ یہ ادراک بھی حواس سے حاصل ہوتا ہے۔ حواس کے نقص کی بدولت ادراک میں نقص واقع ہوجانا لازم ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ادراک شخصی خیال ہے اور اسے علم کے متراف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مطاہر نے ادراک کو آگہی سے بدولت حاصل ہونا قرار دیا۔ آگہی حواس سے حاصل ہوتی ہے اس لیے ادراک تحسیبات سے حاصل شدہ ہے۔ مطاہر اس خیال کے حامی ہیں کہ ادراک غلط آگہی کا سبب بن سکتا ہے۔ ادراک فریب بھی ہوسکتا ہے اور حقیقت بھی۔ ادراک کا تعلق نفوس سے ہے محسوسات کے تابع ہونے کی بنا پر ادراک ناقص ہوتا ہے اور اپنے نمقص کی بدولت عقل نہی ہی کیا جاسکتا۔ عقل ناقص یا کم نہیں ہوتی۔ ادراک علم نہیں ہے۔ مطاہر کے نزدیک عقل حقیقی علم کے مترادف ہے۔ عطاہر لکھتے ہیں؛
” جراثیم موجود لیکن معلوم نہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ اس حقیقت سے آگہی فراہم کرنے سے قاصر ہیں اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ ادراک سے حاصل شده آگہی علم نہیں۔ شکل وارض کا ادراک حرکت اور گہرائی کا ادراک سمعی، مکان ادراک، حرکت کا ادراک وغیرہ تحیات مرحون منت میں جو بھی آگہی پاس ضمن میں حاصل ہوئی ہے وہ حواس کے تابع ہے “

یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ہمارے حواس حقیقت کے عمدہ شادبین ہیں اگر حواس حقیقت کو دریافت کرنے کی صلاحیت رکھتے تو ناقص نہ ہوتے دراصل ہمارے حواس مطاہر کا آلہ کار ہے۔
اب وہ آگہی جب ادراک کی صورت اختیار کرتی ہے تو سال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ادرک جو ایک ظاہری حقیقت کے طور پر ذہین میں وارد ہوا ہے فی الواقع حقیقی ہے یانہیں۔ اس طرح آگہی ہے یا نہیں۔ اس طرح آگہی حقیقت حقیقی کی دریافت شاو سوچ سے متعلق ہو جاتی ہے۔ تفکر کو بروے کارلا کر تفتیش کرنا اور اس کے نتیجہ سے تخلیق کا عمل جاری ہونا یقین ہے۔
یہ عمل دریافت حقیقت تک جاری رہتا ہے اگر نتیجہ نہ نکلے کہ یہ آگہی محض وہ حقیقت ہے جو کسی فرد نے حقیقت کے طور پر تسلیم کرلی ہے تو مطاہر نے اسے حقیقت مددکر سے تعمیر کیا مطلب پر ہوا کر خارجی دنیا سے آگہی ہمیشہ حقیقت نہیں ہوتی اس امر کا تعین کر آگہی حقیقت ہے یا خطا ذہن میں ہوتا ہے ادراک ایک حقیقت ہیں اور ایک شخصی ادراک یا اس سے بھی کم زلفی خطا اس کا تعلق ذہنی مشق سے جب یہ حقیقت دریافت کر لیتا ہے یا کسے شے کو حقیقت تصور کر لیتے تو اس کی بنیاد پر تخلیق کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
“تخلیق کا مفہوم واضح ہو جائے پر پتا چلتا ہے کہ غائب کو حاضر کرنا شے سے شے بنانا یا موجود مکنون سے نئی دنیا آباد کرنا تخلیق عمل کا خاصا ہے”
تخلیق اس حقیقت کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے جو حقیقت ذہن میں پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ کوئی شے حقیقت ہے یا نہیں ہے تخلیق کار اسے حقیقت تسلیم کر کے اس کی بنیاد پر سوچ کی بدولت تخلیق کرتا ہے۔ تنقید حقیقت دریافت کرنے کا ایک وسیلہ ہے۔
حقیقت کیسے دریافت کی جاسکتی ہے ایک اہم سوال ہے۔
تخلیق کی اساس پر موجود حقیقت دریافت کرنا مقصود ہوتی۔ اس کے لیے قیاس کافی نہیں ہوگا۔ ذاتی پسند اور نا پسند، ذاتی تاثرات حقیقت کی دریافت کے عمل میں گمراہ کن ہو سکتے ہیں۔ اس لیے حقیقت کو عقل پر منطبق کیا جانا ضروری خیال کرتے ہوئے مطاہر نے یہ قرار دیا کہ حقیقت کی دریافت عقل کی بنیاد پر کی جاسکتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عقل سے کیا مراد ہے۔ مطاہر نے عقل کو وہ مفہوم نہیں دیا جو عام طور مستعمل ہے۔ بلکہ مطاہر نے عقل اور حقیقت کو مساوی قرار دیا ہے گویا جو عقل ہے وہی حقیقت ہے اور جو فی الواقع حقیقت ہے وہی عقل گویا عقل اور حقیقت کی دریافت کی بدولت تخلیق کی احساس پر موجود حقیقت منکشف ہوتی ہے۔ انسان از ابتدائے آفرینش حقیقت کی دریافت کا متمتی رہا ہے حقیقت کی دریافت کے لیے حواس پر بھروسہ کیا جارہا ہے۔ حقیقت کی حقیقت سے انحراف کیا گیا لیکن دراصل عقل کی حقیقت حقیقی کی تلاش کا ذریعہ ہے۔ حواس آگہی کا وسیلہ ہیں اور عقل کی جانب قدم بڑھانے کا راستہ ہیں۔ حواس سے حاصل ہونے والی حقیقت کو مان لینا ادراک کے وجود کا باعث ہے۔ انسان نے ادراک کو عقل سے تعبیر کر لیا اس لیے ادراکی غلطی تحطی غلطی تصور ہوئی۔
حقیقت امر کر حقیقت تصور کرنے سے ادراکی غلطی ہونے کے امکان تو نہیں کیا جا سکتا اور ادراک کی غلطی کی وجہ جسے حقیقت حقیقی معلوم نہیں ہو سکتی۔ فلاسفہ حقیقت کی تلاش میں رہے ہیں ادراکیت اور عقلیات کی جداگانہ حیثیت کی فہمید نہ ہونے کی بنا پر ادراک کو عقل اور جان کر جس حقیقت کی دریافت کی جاتی ہے وہ حقیقت مددکر ہوتی تھی۔ یہ بات مطاہر نے بتائی کہ ادراکیت جو حواس کی بدولت حاصل ہوتی ہے فی الواقع عقلیت نہیں ہے۔ مطاہر کے نزدیک کائنات ایک عقلی نظام ہےجو عقلی ہے وہ حقیقی ہے جو فی الوقع حقیقت ہے وہ عقل ہے۔ عقل کو حقیقت مان کر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ فہم جو حقیقت کی دریافت کرے وہ حقیقت ہوتی ہے گویا فہم بھی حقیقت کی دریافت کا وسیلہ ہے جو حقیقتاً مال فہم کے ذریعہ معلوم ہوجائے وہ حقیقت بھی اصلی ہوگی اور عقل قرار پائے گی۔ جو کچھ جہاں جہاں ہے وہ ایک حقیقت ہے لامحدود حد تک جو کچھ ہے وہ بھی حقیقت ہے اور اس حقیقت کو ایسے ہی جان لینا جیسی کہ وہ ہے عقل ہے۔ گویا عقل بھی لامحدود ہے۔ اس طرح حقیقت کراس کر اگر عقل پر منطبق ہوجائے تو وہ علم ہے بصورت دیگر اطلاع یا النباس ہوگی۔ عقل اور علم کی تطبیق سے امر عیاں ہوتا ہے کہ دریافت علم دریافت حقیقت اور دیانت حقیقت علم ہے اور ہی عقل ہے۔ آگہی کی بنا پر کسی حقیقت کو غلط قرار دینا دانش مندی نہیں۔ مطاہر کے نزدیک ادراک کو علم سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ علم حقیقت اصلی سے واقیت ہے۔ اندرون عالم با بیرون عالم جو کچھ جس صورت میں ہے اس کو حقیقتاً املیے کو جاننا علم حقیقی ہے۔ غرض یہ کہ علم کو حسیات کے تابع کرنا علم حقیقت اصل سے واقف کو محدود کرنے کے مترادف ہوگا۔
“انسان کا مقام فخر عقل ہے اور عقل کی بدولت ہی امتیازی شیار ممکن ہے۔ اگر عقل نہ ہو تو انسان کو یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ وہ زندگی رکھتا ہے اسے بھی علم نہیں ہو سکے گا۔”
مطاہر ادراک اور عقل کو دو جداگانہ حیثیتوں سے تصور کیا۔ اس طرح ادراک کے افعال اور عقل کے اعمال کو جدا جدا کر دیا۔ ان کے نزدیک ادراک عقل نہیں ہے۔ فہم سے عقل تک پہنچا جاتا ہے۔ حواس سے ادراک تک رسائی ممکن ہے لہذا فہم اور عمل بھی جداگانہ صورتیں ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ فہم عقل نہیں جب کہ فہم کے وسیلے سے ادراک پر کوئی حقیقت متعین کی جاتی ہے گویا عقل کی منزل تک رسائی کے لیے فہم مادہ منزل ہے، اس امر کو یقینی قرار دیا گیا کہ حواس نہ تو سالمات کو معلوم کر سکتا ہے اور نہ مشکل کو حرف فہم معلوم کر سکتا ہے جو مطاہر کی اکثریت سے ان کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔ تہہ تک پہنچ کر اصل کو دریافت کر لینا عقل ہے۔
“افکار مطاہر کے مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ علم اور تحعل علم میں اتصال کی بنیاد پر فلسفہ سائنس اور ریاضی ایک مرکزی نقطے کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہے کہ علم اور صداقت میں کوئی فرق نہیں با الفاظ دیگر علم غلط فہمی نہیں ہوسکتا تو علم تو جانتا ہے یعنی وہ جو کچھ کر دے اسے لے جانا جائے تو علم نہیں چونکہ علم نہیں اس لیے صداقت نہیں۔”

یہ طے کرکے جو بھی کوئی قوت عقل سے ٹکراتی ہے وہ حقیقی نہیں بلکہ باطل ہے۔ عقل کے معنی بیان کر کہ مطاہر نے تمام حقیقتوں کو چار حصوں میں مفت کیا۔ ان کے نزدیک ہر تخلیق کی اساس پر ایک حقیقت موجود ہوتی ہے۔ تخلیق کائنات کی کسی تخلیق پر تنقید کرنے سے قبل اس کے اساس پر ایک حقیقت کا جاننا ضروری ہے۔ اب تک کے تمام طریق ہائے تنقید ایک زاویہ کا ایک پہلو کی نشاندہی کرتے ہیں جب کہ فن پارے میں موجود مکنوں کی نشاندہی کا طریقہ بیان نہیں کرتے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تخلیق اور تخلیق کار کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے قبل اس کی بنیاد میں موجود حقیقت تک رسائی کی جائے اور عقل انسانی کے پیمانے پر اس کی جانچ کی جائے۔ اس مقصد کے لیے مطاہر نے عقلیاتی تنقید کا نظریہ پیش کیا اور اسے واضح طور پر بیان کیا۔ اس نظریہ کے بارے میں تبصرہ اور تشریحات سامنے آچکے یں لیکن ابھی سفر جاری ہے اور بہت سے اہم پہلو اجاگر کرنے ضروری ہی ۔ یعنی 1_ دریافت حقیقت 2_ اقسامِ حقیقت اور عقلیاتی تنقید کے خدوخال 3_ تخلیق کی اقسام 4_ عقل اور اس کا کردار
” مطاہر نے عقلیاتی تنقید کی بنیاد اس نقطے پر رکھی ہے کہ عقل علم ہوتی ہے۔
اس لیے جو کچھ عقل پر منطبق ہوگا وہ عقل اور عقل ہی حقیقت حقیقی ہے۔”
عقلیاتی تنقید کی اساس دریافت حقیقت پر ہے۔ فن پارے میں موجود دریافت حقیقت کو عقلیاتی تنقید کے ذریعے آشکار کیا جاتا ہے۔ یہ تنقید دراصل دریافت حقیقت کا عقلی تحرینہ ہے۔ عقلیاتی تنقید کا نظریہ سس امر کا دعویدار ہے کہ تخلیق ذہن میں راسخ حقیقت کی بنیاد پر مشاہدات کے ردعمل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے پر تخلیق ایک خاص حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے اور فی الواقع، اس حقیقت کو منکشف کرتی ہے۔ عقل اور علم کو تصور کرتی ہے۔ علم کو عقل پر منطبق کر کے حقیقت دریافت کر لی جاتی ہے اور یہ یہی عقلیاتی تنقید ہے۔
یہ نظریہ علماء، فضلا، مکی، محققین، ناقدین ، مفکرین ، اساتذہ اکرام، شعرائے عظام ، ارباب دانش ، صائب ارائے اور ثقتہ الادب اہل علم کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس کی مزید تشریح اور فہمید مطلوب ہے اس کے بہت سے گوشوں کو منقسم کرنے کے لیے شاقہ درکار ہے۔

استفادہ کتب

1_ ارسطو سے ایلیٹ تک
2_ عقلیاتی تنقید
3_ بحر ہستی
4_ ردائے ادب
5_ تجزیہ اور تنقید
6_ تمدنی ترقی میں عقل اور وجدان کی کشاکش
7_ لسانیات اور تنقید
8_ دبستان تنقید

اپنا تبصرہ بھیجیں