یکساں نصاب یا یکساں کتاب— عرفان طالب

پیارے ملک پاکستان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پرانی شراب کو نئی بوتل میں ڈالنے سے نہ صرف اس کا مزہ تبدیل ہو جاتا ہے بلکہ کافی مہنگی بکتی ہے اور دیکھتے دیکھتے دکانوں سے غائب ہو جاتی ہے۔ کئی مےکش اس کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی ہماری تبدیلی سرکار نے کیا۔ 2006 کے نیشنل کریکولم کو سنگل نیشنل کریکولم 2020 کا نام دیا۔ کچھ لفاظی کی اور میڈیا پر اس کا وہ ڈھنڈورا پیٹا کہ تعلیمی اور دانشور حلقوں نے اس پر تعریف کے ڈونگرے برسائے۔ پرائیویٹ بک پبلشرز کی شامت آ گئی اور ان سے این او سی کی مد میں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے ہتھیائے گئے۔ کئی کتابوں کو این او سی جاری کرنے کے بعد خیال آیا کہ اس میں تو ڈالر کا ذکر ہے لہذا ان اسباق کو حذف کرنے کے احکامات جاری کئے گئے۔
کریکولم (نصاب) ایک دائرہ ہوتا ہے جس میں مختلف عمر اور جماعت کے بچوں کے لئے تعلیمی اہداف مقرر کئے جاتے ہیں۔ یکساں نصاب بناتے ہو ئے ماہرین تعلیم بچوں کی عمر، جماعت، قومی نظریات، دنیا کے معروضی حالات ، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی امثال اور تعلیمی معیار کو مدنظر رکھتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ وطن عزیز کی تعلیمی جہت درست سمت میں ہونے کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ہو۔ہمارے جہاندیدہ سیاست دانوں نے یکساں نصاب کو یکساں کتاب کی صورت میں عوام الناس کے سامنے پیش کیا اور نظریہ یہ پیش کیا گیا کہ گوادر سے چترال اور تربت سے لاہور تک ہر سکول میں ایک کتاب پڑھائی جائے گی جس کی وجہ سے ہمارے ملک کے نونہلان نہ صرف ایک جیسے تعلیمی معیار پر پورے اتریں گے بلکہ قومی ہم آہنگی میں اضافہ ہو گا۔
ارباب تعلیم کی توجہ اس جانب مبذول کروائی گئی کہ یکساں کتاب کے نفاذ سے طلباء کو ایک بار پھر رٹو طوطے بنا دیا جائے گا۔ اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرنے کے مترادف ہو گا۔ سکولوں اور پبلشرز پر این او سی کی قدغن لگانا قرین انصاف نہیں ہے۔ ممتاز ماہرین جو طلباء کے لئے درسی کتب لکھتے ہوئے ان کی تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لئے یہ بہت بڑا روح فرسا دھچکا ہو گا۔ پبلشرز جو اس وقت انگلینڈ اور ہانگ کانگ کی کتابوں کے معیار پر کتب چھاپ رہے ہیں ان کے لئے بے پناہ مالی نقصان ہو گا۔ اگلے کئی سالوں تک کتابوں کے لکھنے والے اور پبلشرز اس کام سے توبہ کر لیں گے اور ہمیں باہر کے پبلشرز کا مرہون منت ہونا پڑے گا۔
تعلیم اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی معاملہ ہے لیکن وفاق نے کچھ ایسا جادو کیا کہ صوبائی وزراء تعلیم نے وفاق کے کہے کو حرف آخر سمجھا۔ یہ بات سمجھانے کے لئے ہر قسم کے میڈیا کا سہارا لیا گیا کہ یکساں نصاب کی افادیت کو یکساں کتاب کی شکل میں دریا برد ہونے سے بچایا جائے اور نہ صرف صوبے اپنے معروضی حالات کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں بلکہ سکولوں کے منتظمین کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے اور یکساں نصاب کے متعین اہداف کو مدنظر رکھ کر کسی بھی لکھنے والے یا پبلشر کی کتاب کو اپنے سکول میں لگا سکیں۔ ان سب معروضات کا ابھی تک تو کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہو سکتا ہے مستقبل میں شاید کسی صائب رائےوالے صاحب کی نظر التافات کی وجہ سے ہمارے نقطہ نظر کو پذیرائی میسر آ سکے۔
عرفان طالب،
پرنسپل پریزنٹ ٹائمز پبلک سکول اینڈ کالج،
ایبٹ آباد۔
Email: [email protected]

اپنا تبصرہ بھیجیں