“مذاکرات ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے صورت حال کی سنگینی سے بچا جا سکتا ہے” تحریر : ڈاکٹر زاہد عباس چوہدری

انڈیا سے میچ جیتنے کی خوشی پوری قوم کی طرح مجھے بھی ہے لیکن ہم اگر میچ جیت گئے تو ہر چیز کیا سستی ہو گئی غریب آدمی کو دو وقت کی روٹی کی دستیابی ہو گئی, ڈکیتی اور چوری کی وارداتیں رک گئیں بھیک مانگنے والوں میں کمی ہو گئی پٹرول, ڈیزل , آٹا چینی اور دیگر روز مرہ استعمال کی تمام اشیا کیا سستی ہو گئیں ؟ اگر نہیں تو اس میچ کے جیتنے پہ ہم کیوں خوش ہیں اور اس میچ کی جیت میں بھوکھے ننگے اور غربت و افلاس کے مارے ہوئے لوگوں کو بھولنے کی غلطی ہم کیوں کر رہے ہیں؟
پاکستان مہنگائی کے حوالے سے پوری دنیا میں کس نمبر پہ آ چکا ہے اس بات کی کسی کو کوئی پروا نہیں کیونکہ ہم کرکٹ میچ انڈیا سے جیت چکے ہیں اور حکومت نے ملک کے ہر شہری پہ زندگی تنگ کر دی ہے تو اس بات کی کسی شہری کو کوئی پروا نہیں کیونکہ ہم نے بانوے کا ورلڈ کپ جیتا تھا.
ہم نے عوام کے ساتھ بھی کھیل کھلینا ہی شروع کر دیا کھلاڑی تو کھیل ہی کھیلے گا اپنے لیے عوام کی چاہت اسے حد درجہ اچھی لگتی ہے لیکن جب کوئی کھلاڑی ملک کا حاکم بن جائے تو اسے یہ سمجھ آنی چاہیئے کہ حکومت کوئی کھیل نہیں ہے اور یہاں اچھوں اچھوں کی عزت اتر اتر چکی ہے گیند کو تھوک لگا کے یہاں چلنا ایک مشکل امر ہے کہ تھوک تو سوکھ جاتی ہے اور سوکھنے والی چیز کا کیا مان؟
ملک کے حالات خراب ہونے پہ حاکم جوتے اتار کے ریاست مدینہ میں چلا جائے تو چاہے وہاں ناک رگڑتے ہوئے اس کی آدھی ناک گھس جائے اس کی لغزگش اور غلطی اس وقت تک معاف نہیں ہو گی جب تک وہ اپنی رعایا کے حقوق پورے نہ کرے موجودہ حکومت کی ڈرامے بازیاں اب انتہا کو چھونے لگی ہیں مہنگائی ہے کہ بڑھانے کا ٹھیکہ حکومت کے پاس ہے اور غربت ہے کہ اسے حکومت دل کھول کے غریبوں میں بانٹتی جا رہی ہے اسلامی ریاست اور ریاست مدینہ کا ایک وہ بھی دور تھا کہ دریا کے کنارے کتا بھوک سے مرتا تھا تو حاکم وقت کی نیند اڑ جاتی تھی اور اب مدینہ کی وطن عزیز میں بنی ہوئی ریاست کا یہ حال ہے کہ جب غربت کی چکی میں پسی ہوئی عوام احتجاج کرنے لگتی ہے تو حاکم وقت سعودی عرب میں جا کر جوتے اتار کے گھومتا ہے اور کچھ عقل و دانش سے فارغ لوگ اس پہ فخر کرتے ہیں, ہم تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و کے لیے اپنے کام کاج, کاروبار, بچوں اور خاندان کو چھوڑ کے گھروں سے نکلنے والوں کو دہشت گرد سمجھ بیٹھتے ہیں اور نہتے اور پیدل لوگوں کے لیے خندقیں کھود دیتے ہیں اور طاقت کا اندھا دھند استعمال کرتے ہیں ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ سیکیورٹی فورسز کے لوگ بھی ہمارے اپنے ہیں اور تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے اتنی قربانیاں دینے والے بھی ہمارے اپنے ہیں ہماری ضد اور انا میں نقصان کسی اور کا نہیں ہمارا ہی ہو گا, مکافات عمل کو سمجھنا ہو گا یہ قانون قدرت ہے کہ جو بویا جائے وہی کاٹنا پڑتا ہے.
ہم نے اپنی نالائقیوں کی وجہ ملک کے اندر کسی جنگی بارڈر کے حالات پیدا کر دیے ہیں سوال تو یہ کہ قول و فعل میں تضاد کیوں ہے ہم معاہدے کر کے اپنی بات سے مکر جاتے ہیں ہر جگہ یو ٹرن سے کام نہیں چلتا بعض اوقات قول و فعل میں تضاد ہمیں سنگین نتائج کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے خدا راہ اس قوم پہ رحم کیجیے ایک فرانس کے سفیر کو نکالنے سے کوئی قیامت نہیں آنے والی اور اگر آپ اتنے ہی بے بس تھے تو معاہدہ کرنے کی ضرورت کیا تھی ؟ اب آپ اس بات کا کیا جواب دیں گے کہ لاہور سے راولپنڈی تک لگائی جانے والی نفری پہ جو کروڑوں روپے روازانہ قوم کا پیسہ لگایا جا رہا ہے وہ کس کھاتے میں جائے گا؟ آپ خود دھرنے دیں تو جائز اور کوئی دوسرا دے تو ناجائز جس حد تک آپ گئے تھے بات وہاں تک پہنچی ہی نہیں خلق خدا پہ زمین تنگ مت کرو کیونکہ احتجاج ایک بنیادی حق ہے بلکہ ہو سکے تو نیکی کرو اور احتجاج کرنے والوں کے لیے راشن پانی کا انتظام کرو اور پھر کہو یہ ہے مدینہ کی ریاست!
کالعدم تحریک لبیک کے کارکنان سے گزارش ہے کہ آپ چونکہ ایک عظیم مقصد کے لیے نکلے ہیں اس لیے پر امن رہ کر احتجاج کریں کہ یہ آپ کا حق ہے اور اسے آپ سے کوئی چھین نہیں سکتا جبکہ حکومت وقت سے گزارش ہے کہ حکمرانی ایک بہت بڑا امتحان ہوتا ہے اور کچھ نہیں تو اتنا ہی خیال کریں کہ کل آپ نے اللہ کی عدالت میں بھی پیش ہونا ہے. اس لیے موجودہ حالات میں باہمی گفت و شنید اور مذاکرات ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے صورت حال کی سنگینی سے بچا جا سکتا ہے فوری طور پر مذاکرات کی راہ ہموار کرنا ہی مسئلے کا حل ہے تا کہ ٹکراؤ اور تصادم سے بچا جا سکے ورنہ کون سا مسلمان ایسا ہو گا جو ناموس رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے نہیں نکلے گا, رپورٹس کے مطابق پولیس اہلکاروں سمیت کئی افراد اس تصادم کی وجہ سے جاں بحق ہو چکے ہیں اب بھی وقت ہے اس معاملے پہ ضد اور انا سے ہٹ کر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ورنہ کسی بھی صورت میں ہونے والا نقصان ہمارے ملک اور ہماری قوم کا ہی ہے, دعا ہے کہ اللہ تعالی’ سب کو اتنی سوجھ بوجھ عطا فرمائے کہ ملک و ملت کی بہتری کے لیے اور تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پرچم اونچا رکھتے ہوئے بہتر فیصلے کیے جا سکیں اللہ آپ سب کا اور ملک و ملت کا حامی و ناصر ہو.

اپنا تبصرہ بھیجیں