چکوال کے افق پہ چمکتا ستارہ! تحریر۔چوہدری افراسیاب کہوٹ لنگاہ

چکوال وہ خطہ زمین جو اپنی پہچان آپ ہے یہاں کے روایت پسند لوگ ہوں یا یہاں کا قدرتی حسن،یہاں کے پکوان ہوں یا یہاں کی معدنیات،زرخیز زمین ہو، صحرائی میدان، دور تلک پھیکے سرسبز و شاداب میدان ہوں یا طسماتی پہاڑوں کے سلسلے،تعلیم کا میدان ہو یا کھیل کا میدان،ثقافت سے ہمارا پیار ہو یا اس دھرتی پہ مر مٹنے کی جستجو،الغرض اللہ کریم نے چکوال کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے اوراس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عزتیں اس دھرتی کا ہمیشہ سے مقدر رہیں چکوال کے سپوت جس میدان میں گئے اپنا لوہا منوایا،اپنا دیس ہو یا دیار غیرایک الگ پہچان، ایک الگ سوچ،ہمارا طرہ امتیاز رہی ہے، وطن کی مٹی سے دور رہ کر اس سے جڑے رہنے کا فن اگر کسی کو سیکھنا مقصود ہے تو چکوال سے بہتر مثال ہو نہیں سکتی،وطن کی مٹی سے محبت ہمارے خون میں ہے،اسکا جیتا جاگتا ثبوت چکوال کے قبرستانوں میں لہراتے وہ سبز ہلالی پرچم ہیں جو ہر اس سازش کو، ہر اس سوچ کو، ہر اس اپروچ کو برملا کہہ رہے ہیں کہ”اس دھرتی کی طرف اٹھنے والی ہر آواز، ہر قدم کا دفاع کرنے میں نہ ہم پہلے پیچھے رہے“اور”نہ آئندہ پیچھے رہنے والوں میں سے ہیں“مگرآج میں جس شخصیت کا ذکر کرنے جا رہا جو آج جو میرا موضوع ہے،وہ ہیں اس دھرتی کے ایک ایسے سپوت کہ جن کے بارے اگر یہ کہا جائے کہ وہ دھرتی چکوال کے افق پہ چمکتا ستارہ ہیں،ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں تو بے جا نہ ہو گا،جو رفعتیں اللہ کریم نے ان کو عطا کیں اس سے پہلے شاید ہی کسی کا مقدر بنی ہوں،جی ہاں، میرا مطلب ڈھڈیال سے مغرب کی سمت موجود ایک گاؤں لطیفال گاؤں کے اس سپوت سے ہے کہ جو نہ صرف اس گاؤں، علاقہ کے لئے فخر بنا بلکہ پورے ضلع چکوال بلکہ کہہ لیں پورے پاکستان کے لئے روشن ستارے جیسا ہے،جی ہاں میرا اشارہ پاکستان کیا، دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں میں سے ایک اور بلاشبہ اول درجے کی تنظیم ISI کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور موجودہ کور کمانڈر پشاور جنرل فیض حمید کی طرف ہے،جنرل صاحب نے جس وقت اس اہم عہدے کا چارج سنبھالا تو اسوقت پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا،ایک سے زیادہ محاذ پہ ہمارے دشمن منظم تھے،افغانستان کی صورت حال سب کے سامنے تھی،بلوچستان کے عدم استحکام کرنے کی کوششیں پورے عروج پہ تھیں،پوری قوم کو ضربِ عضب کی صورت اپنوں سے ہی جنگ کا سامنا تھا،اندرونی و بیرونی خلفشار واضح تھا،سی پیک ہمارے دشمن کی آنکھوں میں چھُب رہا تھا،کشمیر پہ ہندوستان کی جارع مزاج پالیسی اپنے عروج پہ تھی اورسیاسی اور سفارتی محاذ پہ وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ ثابت کرنے میں لگا تھا
سفر کی شام ستارہ نصیب کا جاگا
پھر آسمان محبت پہ اک ہلال کھلا
مگر جب چکوال دھرتی کے اس بیٹے نے اپنے قدم جمائے تو اپنی مٹی کا حق ادا کیا نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی خطرات سے متعلقہ اداروں کو آگاہ کیا بلکہ انکو ساتھ لے کر دشمن کے مذموم مقاصد کو خاک میں ملانے میں اہم کردار ادا کیاانکے بارے میں ایک بات مشہور ہے کہ ان میں اس قدر خوبیاں ہیں کہ کوئی بھی ٹاسک دیا جائے تو اسکو کر گزرنے کا عزم انکو ممتاز کرتا ہے،اور جب یہ چکوال کا بیٹا کابل میں کھڑا ہو کر چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے یہ کہہ رہا تھا کہ”Dont Worry, Everything Will be Okay“تو یقیناً جہاں پورا پاکستان ان پہ فخر کر رہا تھا وہاں ہمیں چکوال سے اپنے تعلق پہ بھی ناز تھاہاتھ میں موجود چائے کا وہ کپ ایک خاص پیغام دے رہا تھا جیسے مسکراتے ہوئے کہہ رہے ہوں کہ
ہم سے ٹکراؤ گے تو انجام ندامت ہوگا
ہم نے روندا ہے سبھی فرعونوں کا گھمنڈ
الغرض اپنے اس اہم فرض کو اس قدر احسن طریقے سے نبھایا کہ ہم سب کو ان پہ فخر ہے،جہاں انکی جری خدمات قابلِ ستائش ہیں وہاں انہوں نے بالخصوص اپنے علاقہ اور بالعموم چکوال کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیااوراس حوالے سی بھی اچھی شہرت پائی،چند دن پہلے جب انکی تقرری بطور کور کمانڈر پشاور ہوئی تو چند حلقوں میں یہ بات بھی واضح طور پہ کہی جانے لگی کہ شاید اللہ کریم نے اس دھرتی کے لئے ایک اور اعزاز کا انتخاب کیا ہے،ان ہزاروں شہیدوں کے خون کے صدقے اس دھرتی کو وہ عزت اب ملنے کو ہے جسکی یہ دھرتی کب سے منتظر ہے،جی ہاں، مستقبل میں بطور آرمی چیف انکی تقرری کے امکانات روشن ہیں،کیونکہ،آرمی چیف بننے کے لئے آپ کے پاس بطور کور کمانڈر تعیناتی کا تجربہ ہونا ضروری ہوتا،لہذا کہہ سکتے ہیں کہ
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے، ادھر ڈوبے اُدھر نکلے
جی ہاں، ہمسایہ ملک کے تمام میڈیا پہ انکے ہی چرچے ہیں ابھی سے ان کا دبدبہ حاوی ہے،اور،ایک خوف ہے جو دشمن پہ طاری ہے،انکی ملک و ملت کے لئے خدمات، بین الاقوامی طور پہ انکی خوبیوں کا اعتراف ایک ایسا تمغہ ہے جو ہر چکوال کا شہری اپنے سینے پہ سجانے کو قابلِ فخر سمجھتا ہے،کل کیا ہو گا؟ کیا ہونے والا ہے،اس کا صحیح علم تو میرے ربِ کریم کو ہے،مگر،اتنا ضرور کہوں گا کہ اللہ کریم نے چکوال دھرتی کو جن رفعتوں سے نوازا،جس سوچ اور“اپروچ”کے ہم امانت دار،جس دھرتی پہ ہمیں بجا طور پہ فخر ہے،اس دھرتی کے افق پہ چمکتا ستارہ ہے جنرل فیض حمید۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ انکا ستارہ بلند رہے اور،جس دھرتی سے انکا نام جُڑا ہے اس دھرتی کے مان کو ہمیشہ قائم رکھیں اور عزتیں ہمیشہ چکوال کا مقدر ہوں،اپنا، اپنے اہل و عیال اور بالخصوص اپنے ضمیر کا بہت سارا خیال رکھئے گا،اللہ کریم آپکو اپنی حفظ و امان میں رکھیں اور دھرتی ماں کے ہر سپوت پہ اپنی رحمت کا سایہ رکھیں (آمین)
ہم تو صدا گو تھے۔۔ ہمارا کیا تھا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں