جنیوا :وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے جینیوا میں عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے وفد سے بین الاقوامی کانفرنس کے دوران غیررسمی ملاقات کی اور انہیں پروگرام کی تکمیل کا اعادہ کیا۔
وزارت خزانہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اسحٰق ڈار اور آئی ایم ایف کے عہدیداروں نے موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں خطے کے معاشی چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا۔بیان میں کہا گیا کہ ملاقات کے دوران ’وزیرخزانہ نے آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کرنے کا وعدہ دہرایا‘۔
غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق ملاقات کے بعد آئی ایم ایف کے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر اتھانیسیوس آورینیٹیس نے بتایا کہ ’یہ ایک اچھی ملاقات تھی لیکن میرے پاس بیان دینے کے لیے کچھ نہیں ہے‘۔
خیال رہے کہ آئی ایم ایف کو پاکستان کے لیے 1.1 ارب ڈالر قرض کی قسط جاری کرنی ہے جو گزشتہ برس نومبر سے زیر التوا ہے جبکہ پاکستان کے پاس صرف ایک مہینے کی درآمدات کے لیے ذخائر موجود ہیں۔
علاوہ ازیں سیلاب زدہ علاقوں کی تعمیر نو اور بحالی پر جنیوا میں ہونے والی عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا تھا کہ پاکستان کو ایسے موقع پر تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جب وہ پہلے سے ہی روس ۔ یوکرین جنگ، توانائی کے بحران، بڑھتی مہنگائی اور پھیلتی غربت جیسے عالمی مسائل سے نمٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون کے دوران معمول سے کئی گنا زیادہ ہونے والی بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب کے باعث ملک خاص طور پر صوبہ سندھ اور بلوچستان میں بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے، ان نقصانات سے 3 کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے، 1700 شہری جاں بحق ہوئے، 13 ہزار افراد زخمی ہوئے اور لاکھوں خواتین اور بچے شدید خطرات سے دوچار ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ تاریخ کے بدترین سیلاب کے دوران 13 ہزار کلو میٹر سے زیادہ سڑکیں تباہ ہوگئیں، 440 پُل منہدم ہوگئے، 50 لاکھ ایکٹر زمین پر موجود فصلیں برباد اور 20 لاکھ گھر مکمل طور پر یا جزوی طور پر متاثر ہوئے اور 10 لاکھ مال مویشی ہلاک یا لاپتا ہوگئے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ سیلاب کے باعث کئی مہینوں تک زمین کا بڑا حصہ زیر آب رہا، کھڑے پانی کے باعث فصل سیزن متاثر ہوا، اسکول بند رہے، طبی مراکز بند رہے اور دیہاتی علاقے ناقابل رسائی رہے، اس دوران متاثرین کو عارضی پناہ گاہوں میں منتقل کیا گیا اور ضروری خدمات فراہم کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب کے باعث 22 ہزار اسکولز متاثر ہوئے اور 35 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہوگئے، ملک میں تعلیمی نظام کو بحال کرنے کے لیے مربوط اقدامات اور وسائل کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کی امداد کے لیے 70 ارب روپے جاری کیے گئے اور اب تک لاکھوں لوگوں کو نقد رقم اور امداد جاری کردی گئی ہے۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان اپنی عالمی ذمہ داریوں پر قائم ہے، انہوں نے زور دے کر کہا کہ ملک اپنے میکرو اکنامک مالیاتی ایجنڈے پر گامزن ہے جس کا مقصد محصولات میں اضافہ، سماجی شعبے کے پروگراموں پر اخراجات میں اضافہ، دیگر اخراجات میں کمی اور تعمیر نو، بحالی کے لیے مزید مالیاتی گنجائش پیدا کرنے پر توجہ دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ضروری مالی اصلاحات کر رہا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں فوری طور پر مختصر مدت کی مدد کی ضرورت ہے کیونکہ ہم کئی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں فوری طور پر صرف وسائل کے لیے وعدوں کی توقع نہیں ہے بلکہ ہم موجودہ مالی سال کے دوران اپنے بجٹ اور ملنے والی امداد کو بھی دیکھ رہے ہیں تاکہ حکومت ریلیف ورک جاری رکھ سکے۔