پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ کل تک جمع کرائیں، سپریم کورٹ:فل کورٹ کی استدعا پر اٹارنی جنرل کوتندو تیز سوالات کا سامنا

اسلام آباد (یو این آئی )سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔عدالتی اصلاحات بل پرجاری حکم امتناع حتمی فیصلے تک برقرار رہے گا۔فل کورٹ کی استدعا پر اٹارنی جنرل کو سپریم کورٹ کے ججز کے سامنے تندو تیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا،عدالت نے تین ہفتوں کے لئے سماعت ملتوی کر دی۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل سے متعلق کیس میں ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کردیا گیا۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ کیا حکومت فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟۔ جسٹس مظاہر نے پوچھا کہ آرٹیکل 91 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کیسے ہوسکتی ہے؟۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیخلاف دائردرخواستوں پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر،جسٹس مظاہرنقوی،جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس عائشہ ملک،جسٹس حسن اظہر رضوی اورجسٹس شاہد وحید بھی بینچ کا حصہ ہیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کیلئے درخواست دائر کی ہے۔مسلم لیگ ن نے بھی عدالتی اصلاحات سے متعلق بل پر فل کورٹ کی تشکیل کیلئے درخواست دے دی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کی درخواست پرتوابھی نمبر بھی نہیں لگا۔پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کیس کی سماعت کیلئے فواد چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے دستاویزات جمع کروا دی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ توقع ہے کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ مل جائے گا، اسپیکر آفس سے باضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیا ہے، عدالت قرار دے چکی ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے، عدلیہ کی آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے۔

منصور عثمان اعوان نے دلائل میں کہا کہ قانون میں بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ طے کیا گیا ہے، عدالتی اصلاحات بل میں وکیل کی تبدیلی کا بھی حق دیا گیا ہے، قانون میں جو معاملات طے کئے گئے وہ انتظامی نوعیت کے ہیں، سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے تشکیل دیئے تھے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم بھی فل کورٹ ہی کرسکتی ہے، عدلیہ کی آزادی اور رولز سے متعلق فیصلہ و مقدمہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہئے، قانون براہ راست ان ججز پر بھی لاگو ہوگا جو مقدمہ نہیں سن رہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سوال قانون سازی کے اختیارات کا ہے رولز میں ترمیم کا نہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا کہ کیا ماضی میں ایسی قانون سازی ہوئی ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 1992ء تک رولز بنانے کیلئے صدر کی اجازت درکار تھی، صدر کی اجازت کا اختیار واپس لے لیا گیا تھا، رولز آئین و قانون کے مطابق بنانے کی شق برقرار رکھی گئی، اٹارنی جنرل۔ جسٹس مظاہر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 91 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کیسے ہوسکتی ہے؟۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون سازی کے اختیار کے مقدمات مختلف بینچز معمول میں سنتے رہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ماضی میں کبھی ایسا مقدمہ نہیں آیا اس لئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کئی مقدمات اپنی نوعیت کے پہلے ہوتے ہیں، سپریم کورٹ کا کوئی بھی بینچ کوئی بھی مقدمہ سن سکتا ہے، کیا حکومت فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟، ہر مقدمہ اہم ہوتا ہے یہ تعین کیسے ہوگا کہ کون سا کیس فل کورٹ سنے؟، کیا عدلیہ کی آزادی کا ہر مقدمہ فل کورٹ نے سنا تھا؟۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ افتخار چوہدری کیس سمیت کئی مقدمات فل کورٹ نے سنے؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 1996ئ سے عدلیہ کی آزادی کے مقدمات سنے جا رہے ہیں، بظاہر یہ آپ کا مقدمہ نہیں لگتا کہ فل کورٹ بنائی جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں عوام کا اعتماد فل کورٹ پر ہے، عدالت درخواست گزار کی خواہش پر اپنی کارروائی کیسے ریگولیٹ کرے۔

عدالت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر تاحکم ثانی عملدرآمد روک رکھا ہے، قائمہ کمیٹی میں ہونیوالی بحث کا ریکارڈ بھی عدالت عظمی نے پیش کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے، وفاقی حکومت نے فل کورٹ کی تشکیل دینے کیلئے متفرق درخواست دائر کررکھی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں