سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ ، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کالعدم ، قومی اسمبلی بحال ، عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کرانے کا حکم

اسلام آباد(یو این آئی نیوز) سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آ ئینی قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی اور کابینہ کو تین اپریل حیثیت سے بحال کردیا جبکہ عدم اعتماد ووٹنگ کے لیے اجلاس بلانے کی ہدایت بھی کردی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے چار روز سماعت کے بعد از خود نوٹس کیس کا محفوظ فیصلہ جاری کیا۔ لارجر بینچ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا اور وزیراعظم کی قومی اسمبلی توڑنے کی سفارش جبکہ صدر مملکت کے اسمبلی تحلیل کرنے کے حکم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے تین اپریل کی صورت بحال کردیا۔

سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل 2022 کو بلانے کی ہدایت کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پرکارروائی جاری رکھنے کا حکم بھی دیا اور ہدایت کی ہے کہ جب تک تحریک عدم اعتماد پر کاروائی مکمل نہ ہو اسمبلی کا اجلاس پر وروگ نہیں کیا جا ئے اور اگر عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو قومی اسمبلی نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے اور اگر ناکام ہوتی ہے تو عمران خان بطور وزیراعظم اپنا کام جاری رکھ سکیں گے۔
سریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے اپنے متفقہ مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ آرٹیکل 63 اے پر عدالتی فیصلے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا، حکومت کسی صورت اراکین کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکتی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم اسمبلی تحلیل کرنے کے اہل نہیں تھے لہذا ایوان کو بحال کیا جائے اور اسپیکر ہفتے کو دوبارہ اجلاس طلب کریں۔ عدم اعتماد کامیاب ہو تو فوری نئے وزیراعظم کا الیکشن کرایا جائے۔ چیف جسٹس ،جسٹس عمر عطاءبندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے جمعرات کے روز بھی از خود نوٹس کیس کی سماعت جاری رکھی ،
صدر مملکت کے وکیل علی ظفر،سپیکر کے وکیل نعیم بخاری،وزیر اعظم کے وکیل امتیاز صدیقی ،اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اپنے دلائل مکمل کئے۔جواب الجواب میں مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے بھی اپنی گزارشات عدالت کے سامنے رکھیں۔جبکہ عدالت عظمیٰ نے فیصلہ محفوظ بنانے کے پہلے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف،اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کو بھی روسٹرم پر آ کر اپنے تحفظات پر بات کرنے کی اجازت دی۔سماعت کے دوران ججز نے دو دفعہ بیس بیس منٹ کا وقفہ بھی کیا۔چیف جسٹس آف پاکستان نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ دیکھنا ہے اسمبلی تحلیل اور سپیکر رولنگ میں کتنے ٹائم کا فرق ہے،ایک بات تو نظر آ رہی ہے رولنگ غلط ہے،دیکھنا ہے اب اس سے آگے کیا ہوگا،پولیس، ایف سی اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو الرٹ کر دیا گیاہے،قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے،پنجاب اسمبلی کی معاملہ فریقین ہائی کورٹ لیکر جائیں۔ہم قومی اسمبلی کے کیس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے،سمجھنا چاہتے ہیں کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے؟عدم اعتماد پر اگر ووٹنگ ہوجاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا؟ یہاں معاملہ حلف لینے کا نہیں رولنگ کا ہے،کہیں تو لائین کھینچنا پڑے گی.
بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی، اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت سلیکشن کا اعلان کردے، الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں،ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا،یہ قومی مفاد ہے،درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا کہ لیو گرانٹ ہونے کے بعد رولنگ نہیں آ سکتی،درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے رولنگ آ سکتی تھی، قانون یہی ہے کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی،عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے، ہمیں دیکھنا ہے کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کے پاس کوئی مٹیریل دستیاب تھا جس کی بنیاد پر رولنگ دی؟کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ نیک نیتی پر مبنی تھی؟ڈپٹی اسپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئے؟ وزیراعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ڈپٹی اسپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا، ووٹنگ کے دن رولنگ آئی، سپیکر نے تحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی؟
صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے،آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے،اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی،حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے،وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی،جب محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیا تو اس معاملے میںعدالت نے جونیجو کی حکومت کے خاتمہ کو غیر آینی قرار دیا،لیکنعدالت نے اسمبلی کے خاتمہ کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا،یہاں بھی اسمبلی تحلیل کرکے الیکشن کا اعلان کر دیا گیا،میری بھی یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں، الیکشن کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی اقدام بدنیتی نہیں تھا۔
وزیر اعظم کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل دیئے کہ عدالت نے ماضی میں بھی پارلیمان کی کاروائی میں مداخلت نہیں،عدالت کے سامنے معاملہ ہاوس کی کاروائی کا ہے، اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر کی اجلاس کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا،ڈپٹی سپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا،پارلیمان کے اجلاس میں ڈپٹی سپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں،اسپیکر کو اگر معلوم ہو کہ بیرونی فنڈنگ ہوئی یا ملکی سالمیت کو خطرہ ہے تو وہ قانون سے ہٹ کر بھی ملک کو بچائے گا،اسپیکر نے اپنے حلف کے مطابق بہتر فیصلہ کیا، اسپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے،آرٹیکل 69 کو ارٹیکل 127 سے ملاکر پڑھیں تو پارلیمانی کارروئی کومکمل تحفظ حاصل ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کاروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کاروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی، ڈپٹی سپیکر نے نیشنل سکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا،نیشنل سکیورٹی کمیٹی پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا،وزیراعظم نے کہا اگر بدنیت ہوتا تو اپنی حکومت ختم نہ کرتا،وزیراعظم نے کہا انتخابات پر اربوں روپے لگیں گے،وزیراعظم نے کہا ان کیخلاف عوام میں جا رہا ہوں جنہوں نے کئی سال حکومتیں کیں۔
اسپیکرو ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل شروع کرنے سے پہلے بتایا کہ وہ بیرسٹر علی ظفر کے دلائل اڈاپٹ کرنے کے ساتھ اپنا مدعا بھی عدالت کے سامنے رکھیں گے۔انہوں نے موقف اپناےا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جا سکتا ہے، اگر سپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟ پوائنٹ آف آرڈر پر سپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے،پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں لیکن سپیکر کا اختیار ضرور ہے،نئے انتخابات کا اعلان ہوچکا،اب معاملے عوام کے پاس ہے،سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیئے،تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری کا مطلب یہ نہیں کہ مسترد نہیں ہو سکتی، عدالت بھی درخواستیں سماعت کیلئے منظور کرکے بعد میں خارج کرتی ہے،اسمبلی کارروائی شروع ہوتے ہی فواد چوہدری نے پوائنٹ آف آرڈر مانگ لیا،تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شروع ہوجاتی تو پوائنٹ آف آرڈر نہیں لیا جا سکتا تھا،موشن اور تحریک کے الفاظ ایک ہی اصطلاح میں استعمال ہوتے ہیں،تمام اپوزیشن اراکین نے کہا سوال نہیں پوچھنے صرف ووٹنگ کرائیں، اس شور شرابے میں ڈپٹی سپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا،پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو خط پر بریفننگ دی گئی،کمیٹی کو بتایا گیا کہ عدم اعتماد ناکام ہوئی تو نتائج اچھے نہیں ہونگے،
نعیم بخاری نے اس موقع پر فواد چوہدری کا پوائنٹ آف آرڈر اور قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کا مسودہ عدالت کو پیش کرتے ہوئے بتاےا کہپارلیمان کے اندر جو بھی ہو اسے آئینی تحفظ حاصل ہوگا،حتمی فیصلہ عدالت کا ہوگا، ہمارا موقف ہے کہ رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا،اسپیکر نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی توثیق کی،ایوان کے پاس رولنگ مسترد کرنے کا اختیار تھا لیکن نہیں کیا گیا، عدالت اسمبلی تحلیل کا جائزہ لے سکتی ہے،?اٹارنی جنرل آف پاکستان نے دلائل دپنائے کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ کی تفصیل کھلی عدالت میں نہیں دے سکوں گا،عدالت کسی کی وفاداری پر سوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کر سکتی ہے، قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں انتہائی حساس نوعیت کے معاملات پر بریفننگ دی گئی،قومی سلامتی کمیٹی پر ان کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے پر تیار ہوں،وزیراعظم سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں اس لئے اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے، اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے وزیراعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں،وزیر اعظم کی سفارش پرصدر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی، تحریک عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیادی حق نہیں تھا،ووٹ ڈالنے کا حق آئین اور اسمبلی رولز سے مشروط ہے،سپیکر کسی رکن کو معطل کرے تو وہ بحالی کیلئے عدالت نہیں آ سکتا، تحریک عدم اعتماد سمیت تمام کارروائی رولز کے مطابق ہی ہوتی ہے،حکومت کی تشکیل ایوان میں کی جاتی ہے،آئین ارکان کی نہیں ایوان کی 5 سالہ معیاد کی بات کرتا ہے، برطانیہ میں اسمبلی تحلیل کرنے کا وزیراعظم کا آپشن ختم کردیا گیا ہے،ہمارے آئین میں وزیر اعظم کا اسمبلی تحلیل کرنے کا آپشن موجود ہے،پارلیمانی کارروائی کو مکمل ایسا استثنی نہیں سمجھتا کہ کوئی آگ کی دیوار ہے،پارلیمانی کارروائی کا کس حد تک جائزہ لیا جا سکتا ہے عدالت فیصلہ کرے گی،اگر اسپیکر کم ووٹ لینے والے کے وزیراعظم بننے کا اعلان کرے تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے،تحریک پیش کرنے کی منظوری کیلئے 20% یعنی 68 ارکان کا ہونا ضروری نہیں،سوال یہ ہے کہ اگر 68 ارکان تحریک منظور اور اس سے زیادہ مسترد کریں تو کیا ہوگا؟ اسمبلی میں کورم پورا کرنے کیلئے 86 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے، تحریک پیش کرنے کی منظوری کے وقت اکثریت ثابت کرنا ضروری ہےتحریک عدم اعتماد پیش ہونے کی کوئی بنیاد بتانا ضروری نہیں،تحریک پیش کرتے وقت تمام 172 لوگ سامنے آ جائیں گے،تحریک پیش کرنے اور ووٹنگ میں تین سے سات دن کا فرق بغیر وجہ نہیں،سات دن میں وزیراعظم اپنے ناراض ارکان کو منا سکتا ہے،تحریک عدم اعتماد قانونی طور پر پیش کرنے کی منظوری نہیں ہوئی، جسٹس مظہر عالم نے اس موقع پر اٹارنی جنرل کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ اسپیکر نے قرار دیدیا کہ تحریک منظور ہوگئی آپ کیسے چیلنج کر سکتے ہیں؟جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اپناےااسپیکر کی رولنگ چیلنج نہیں ہوسکتی تو کیس ہی ختم ہو گیا،تحریک پیش کرنے کے حق میں 161 لوگوں نے ووٹ کیا تھا،اگر 68 لوگ تحریک پیش کرنے کی منظوری اور 100 مخالفت کریں تو کیا ہوگا؟ایوان کی مجموعی رکنیت کی اکثریت ہو تو ہی تحریک پیش کرنے کی منظوری ہوسکتی،آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ اکثریت مخالفت کرے تو تحریک مسترد ہوگی، تحریک پیش کرنے کی منظوری کا ذکر اسمبلی رولز میں ہے،تحریک عدم اعتماد نمٹانے کے بعد ہی اسمبلی تحلیل ہوئی،میں رولنگ کا دفاع نہیں کر رہا،میرے تحفظات نئے انتخابات کا ہے،سب چاہتے ہیںوزیر اعظم اراکین اسمبلی کے نہیں عوام کے منتخب کردہ ہوں،جنہوں نے عمران خان کو پلٹا ہے وہ شہباز شریف کو بخشیں گے؟ اپوزیشن کا الیکشن کا مطالبہ پورا ہو رہا ہے تو ہونے دیں،
مخدوم علی خان نے جواب الجواب میں موقف اپنایا کہ اٹارنی جنرل کی آخری باتیں دھمکی آمیز تھیں، کون کس کو نہیں چھوڑے گا، کس کو سرپرائز دے گا یہ نہیں کہنا چاہیے،وزیراعظم نے سرپرائز دینے کا اعلان کیا تھا،عدالت سیاسی تقاریر پر نہ جائے،حاجی سیف اللہ کیس امتیازی کیس ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ رولنگ ختم ہو اسمبلی بحال نہ ہو، اس رولنگ کے بعد اقدامات کی توثیق کی تو ایک پیغام جائے گا،پیغام جائے گا پلگ نکال دو تاکہ دوسرا نہ آ سکے،تین اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، صوبائی حکومتیں رکھتے ہوئے انتخابات کیسے شفاف ہونگے؟ صدر نے سپیکر کی ملی بھگت سے سمری منظور کی۔چیف جسٹس نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو بات کرنے کی اجازت دی تو انہوں غداری کے الزام کیساتھ الیکشن کیسے لڑیں گے، ہم اس الزام کیساتھ گھر والوں کا سامنا نہیں کر سکتے، سازش کے ثبوت لے آئیں عدالت کی ہر سزا قبول کرتے ہوئے سیاست چھوڑ دونگا۔
شہباز شریف نے کہا کہ عام آدمی ہوں قانونی بات نہیں کروں گا، عدالت کے سامنے پیش ہونا میرے لئے اعزاز ہے،رولنگ ختم ہونے پر تحریک عدم اعتماد بحال ہو جائے گی،سپیکر کی رولنگ کالعدم ہو تو اسمبلی کی تحلیل ازخود ختم ہوجائے گی،ہماری تاریخ میں آئین کئی مرتبہ پامال ہوا،جو بلنڈر ہوئے انکی توثیق اور سزا نہ دیے جانے کی وجہ سے یہ حال ہوا،عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے، پارلیمنٹ کا عدم اعتماد پرووٹ کرنے دیا جائے،حکومت 174 ووٹوں پر قائم تھی، ہمارے پاس 177 ممبران ہیں، آئین کی بحالی اور عوام کیلئے اپنا خون پسینہ بہائیں گے، بطور اپوزیشن لیڈر چارٹر آف اکانومی پیش کش کی، 2018 میں ڈالر 125 روپے کا تھا،اب ڈالر 190 تک پہنچ چکا ہے، پارلیمنٹ کو اس کا کام کرنا چاہیے، پارلیمنٹ ارکان کو فیصلہ کرنے دینا چاہئے،پی ٹی آئی نے بھی اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی،اپنی پہلی تقریر میں چارٹر آف اکانومی کی بات کی تھی،عوام بھوکی ہو تو ملک کو قائد کا پاکستان کیسے کہیں گے، مطمئن ضمیر کیساتھ قبر میں جاوں گا،سیاسی الزام تراشی نہیں کروں گا، آج بھی کہتا ہوں چارٹر آف اکانومی پر دستخط کریں۔حکومت 174 ووٹوں پر قائم تھی ہمارے ممبر 177 ہیں،آئین کی بحالی اور عوام کیلئے اپنا خون پسینہ بہائیں گے، چیف جسٹس نے اس موقع پر شہباز شریف سے استفسار کیا کہ2013 کے الیکشن میں آپ کی کتنی نشستیں تھیں؟جس پر شہباز شریف نے بتاےا کہ گزشتہ انتخابات میں 150 سے زائد نشستیں تھیں،ڈیڑھ سال پارلیمنٹ کا ابھی باقی ہے،اپنی اپوزیشن سے ملکر انتخابی اصلاحات کرینگے تاکہ شفاف الیکشن ہو سکے،عام آدمی تباہ ہوگیا اس کیلئے ریلیف پیدا کرنے کی کوشش کرینگے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق عمران خان بطور وزیراعظم جبکہ ان کی کابینہ کے اراکین کی حیثیت بھی بحال ہوگئی، اسی طرح معاونین اور مشیر بھی عہدوں پر بحال ہوگئے۔فیصلے کے تناظر میں سپریم کورٹ کی اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی کو انتہائی سخت کیا گیا، کمرہ عدالت میں مخصوص افراد کے علاوہ کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں