میرے قلم سے ، تحریر .ابن سرور

عنوان ۔۔ منی الیکشن اور منی بجٹ

۔۔۔ملک میں ایک بار پھر جلسوں کا موسم ہے ،کیونکہ 17 جولائی کو پنجاب میں ایک منی الیکشن جو ہونے جا رہا ہے ، تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے 2 جولائی کو پریڈ گراونڈ اسلام آباد میں ایک اور تاریخی جلسہ کر کے اسلام آباد میں کامیاب جلسوں کا ایک نیا ریکارڈ بنا ڈالا جبکہ دوسری جانب ن لیگ کی رہنماٗ مریم نواز اپنی پارٹی کی انتخابی مہم پر نکلی ہوئی ہیں ، ان کے جلسے دیکھ کر تولگتا ہے کہ ن لیگ پر تو اس وقت برُا وقت ہےکیونکہ مریم نوازکے جلسوں میں شرکا کی تعداد سے تو نہیں لگ رہا کہ وہ کوئی کرشمہ دکھا پائیں گی اور عوام کی اکثریت کی یہ رائے ہے کہ عمران خان کو ناکام کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ ن لیگ کو ہارنے نہیں دے گی جب عوام کی سوچ کا یہ عالم ہو تو پھر اس ملک میں انتخابات کی کریڈیبلٹی کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے اور ایسے الیکشن کبھی بھی ملک میں بہتری نہیں لایا کرتے منی الیکشن تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہونے جا رہے ہیں وہ بھی ایسے وقت میں جب عام انتخابات میں صرف گیا رہ ماہ کا وقت باقی رہ گیا ہے،
لیکن ہمارے ہاں منی بجٹ کا بہت رواج ہےماضی میں برسراقتدار آنے والی حکومتوں مین شاید کوئی حکومت ہو جس نے اپنی ناقص اقتصادی پالیسیوں کے باعث منی بجٹ نہ دیے ہوں لیکن موجودہ اتحادی حکومت نے تو اس حوالے سے ایک نیامنفرد اور یکتا ریکارڈ قائم کیا ہے جو شاید ہی آئندہ کوئی حکومت توڑ پائے ، اس حکومت نے ایک ہی مہینے کے اندر جس طرح پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 100 روپے سے زائد کا اضافہ کر ڈالا اسی طرح اس نے تین ہفتوں کے اندر تین منی بجٹ دیے ، اس نے 10جون 2022سے 29جون2022 تک یعنی وفاقی بجٹ پیش ہونے سے لے کر بجٹ منظور ہونے تک ایک مکمل اور دو منی بجٹ پیش کر ڈالے ، ایسا کیوںہوا تو اس کا راز بھی افشا کیے دیتے ہیں کہ حکومت کو اس دوران آئی ایم ایف کی جانب سے نئی نئی ہدایات آتی رہیں اور یہ حکومت اپنے عوام کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اس کی باندی کے طور پر اس کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کرتی رہی ایسی جی حضوری اور ایسی غلامانہ ذہنیت اس سے پہلے اس ملک کے عوام نے کبھی نہ دیکھی تھی کہ آئی ایم ایف نے جو کہا وہ یہ حکومت مانتی چلی گئی اور عوام پر ایسی مہنگائی مسلط کی کہ ان کی چیخیں نکل گئیں ، مگر اس حکومت کا کیا ، یہ کونسا عوام کی تائید و حمایت سے برسراقتدار آئی ہے جو ان کی پرواہ کرتی ، حکومت نے تو انہی کا حکم ماننا تھا جو اس کی خالق ہیں اور جنھوں نے ایک گہری سازش کے ذریعے ان حکمرانوں کو ہم پر مسلط کیا ہے ، پہلی بار جب 10جون کو بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے 440ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا اعلان کیا تو خود حکومتی وزراء کی جانب سے کہا گیا کہ آئی ایم ایف ابھی بھی خوش نہیں ہے ،تو وزیر اعظم شہباز شریف نے صحیح کہا تھا کہ” beggars can’t be chooser “جب یہ ہیں ہی بھکاری تو پھر قرض دینے والوں نے ناراض ہی ہونا ہے، انھوں نے ثابت کیا ہے کہ ان میں نہ خود داری ہے اور نہ ہی کوئی انا ، یہ بھکاری بن کر آئی ایم ایف کے پاس گئے اور اس ادارے نے بھی انھیں بھکاری کی طرح برتاو کیا ، ان میں خود داری ہوتی تو یہ اقتدار واپس عمران خان کے حوالے کرتے اور واپس چلے جاتے اور عمران خان کو کہتے کہ یہ گند تمہارا ہی پھیلایا ہوا ہے لہذا تم ہی اس سے نمٹو لیکن کہاں جی اقتدار کی ہوس میں ان کو بھکاری بننا بھی برا نہ لگا اور بڑی بے شرمی سے یہ ثابت کر دیا کہ ان کی جانب سے جو بجٹ بنا یا جا رہا ہے وہ عوام نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی خوشی اور نا خوشی کو مدنظر رکھ کر بنایا جا ریا ہے ،
لہذا حکومت کی جانب سے اپنے آقاوں کو خوش کرنے کے لیے بجٹ پر قومی اسمبلی میں ہونے والی عام بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے 400ارب کے مزید ٹیکسوں کا اعلان کر دیا ، اس سے پہلے 24 جون کو وزیر اعظم میاں شہباز شریف صبح اچانک ٹی وی پر نمودار ہوئے اور بڑی صنعتوں اور مراعات یافتہ طبقوں پر دس فیصد سپر ٹیکس کے نفاذ کا اعلان کر دیا ، اسی دن بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ٹیکسوں میں دی جانے والی رعایت کو واپس لینے اور 6 سے 12 لاکھ سالانہ آمدن والوں پر 2.5 فیصد ٹیکس لاگو کر کے اپنے ہی منہ نوچ لیا اس طرح 10جون کو بجٹ پیش ہونے سے لے 29جون کو بجٹ کی منظوری تک مجموعی طور پر اس ملک کے عوام پر 14سے15سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگ چکے تھے اور قوم کو اس بات کی سمجھ ہی نہیں تھی کہ ان کے ساتھ ہو کیا گیا ہے کس طرح اس اتحادی حکومت نے انھیں آئی ایم ایف کے ہاتھوں بیچ دیا ہے اور اپنے اقتدار کو بچا لیا ہے ،آج بجٹ کے باعث ہونے والی مہنگائی اور پیٹرول کی قیمت 250روپے تک لے جانے پر مگر مچھ کے آنسو بہتے ہوئے عوام کو یہ یقینی دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم تو پیٹرولیم کی قیمتیں بڑھاتے ہوئے روئے یا ہم نے تو بہت بھاری دل سے قیمتیں بڑھائیں جبکہ ان حکمرانوں کی دو نمبری کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم نے جب ٹی وی پر اپنے خطاب میں 10فیصد سپر ٹیکس کا اعلان کیا اس وقت اس اعلان سے قبل انھوں نے قومی خصوصا مراعات یافتہ طبقے کو سادگی اپنانے ، قربانی دینے اور اپنی جیب سے رقم قومی خزانے میں شیئر کر کے اقتصادی بحران کو کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا اور قوم کو یہ بھاشن دینے کے اگلے ہی روز وزیر اعظم صاحب 25گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ سندھ میں اپنے اتحادی آصف علی زرداری سے ان کی والد ہ کے انتقال پر تعزیت کے لیے ان کے گھر پہنچے، اس سے ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے حوالے سے ان کی سنجیدگی کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ،

اپنا تبصرہ بھیجیں